مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ نکاح کے اعلان اور نکاح کے خطبہ وشرط کا بیان ۔ حدیث 357

نکاح کے وقت دف بجانا جائزہے

راوی:

عن الربيع بنت معوذ بن عفراء قالت : جاء النبي صلى الله عليه و سلم فدخل حين بني علي فجلس على فراشي كمجلسك مني فجعلت جويرات لنا يضربن بالدف ويندبن من قتل من آبائي يوم بدر إذ قالت إحداهن : وفينا نبي يعلم ما في غد فقال : " دعي هذه وقولي بالذي كنت تقولين " . رواه البخاري

حضرت ربیع بن معوذ بن عفرا کہتی ہیں کہ جب میں نکاح کے بعد اپنے شوہر کے گھر رخصت ہو کر آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور میرے بستر پر اس طرح بیٹھ گئے جس طرح تم میرے بستر پر بیٹھے ہو (ربیع نے یہ بات حضرت خالد بن ذکوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہی جنہوں نے یہ روایت نقل کی ہے) اور ہمارے خاندان کی بچیوں نے جو اس وقت ہمارے گھر میں موجود تھیں دف بجانا شروع کیا اور ہمارے آباء میں سے جو لوگ بدر کے دن شہید ہو گئے تھے ان کی خوبیوں اور شجاعت پر مشتمل اشعار پڑھنے لگیں اسی دوران ان میں سے ایک بچی نے یہ کہا کہ " اور ہمارے درمیان وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو کل ہونیوالی بات کو جانتے ہیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اس بات کو چھوڑ دو (یعنی اس قسم کی باتیں نہ کہو) بلکہ وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں ( بخاری ومسلم)

تشریح :
عفراء حضرت معوذ کی والدہ کا نام ہے جضرت معوذ ایک عظیم المرتبت صحابی ہیں جنہوں نے غزوہ بدر کے موقع پر حق کا پر چم سر بلند کرتے ہوئے میدان کارزار میں جام شہادت نوش کیا اور تاریخ اسلام کی یہی وہ عظیم ہستی ہے جس نے اپنے بھائی معاذ کی معیت میں اس غزوہ بدر میں ابوجہل لعین کو قتل کیا۔
بچیوں سے انصار کی وہ چھوٹی بچیاں مراد ہیں جو ابھی بچپن کے دور سے گزر رہی تھیں اور حد بلوغ کو نہیں پہنچی تھیں ۔ اکمل الدین نے کہا کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ وقت نکاح اور زفاف کے اعلان کے لئے دف بجانا جائز ہے پھر بعض علماء نے اس جواز میں ختنہ ، عیدین، مسافر کی آمد، اور تقریب میں مسرت میں احباب واعزہ کے اجتماع کو بھی شامل کر دیا ہے یعنی نکاح کی طرح ان مواقع پر بھی دف بجانا جائز ہے لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ دف سے مراد وہ دف ہے جس میں جھانج نہ ہو کیونکہ جھانج دار دف بجانا متفقہ طور پر مکروہ ہے۔
حدیث کے آخری جملہ کی وضاحت یہ ہے کہ اس وقت جب کہ وہ بچیاں اپنے آباء واجداد کے بہادرانہ کارناموں اور حق کی راہ میں ان کے قربان ہو جانے کی پُرشجاعت داستانوں کے گیت گانے لگیں تو اسی دوران ایک بچی نے جو ابھی عقائد کے نازک گوشوں سے ناواقف تھی گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توصیف میں یہ کہا کہ ہمارے درمیان وہ نبی موجود ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ آنیوالی کل میں کیا وقوع پذیر ہوگا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنتے ہی اسے روک دیا کیونکہ اس نے علم غیب کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی تھی جو ظاہر ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے گوارا ہو سکتی تھی اس لئے کہ عقائد کا یہ کھلا ہوا مسئلہ ہے کہ غیب کی باتوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، ہاں یہ اور بات ہے کہ غیب کی جن باتوں کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اپنے رسولوں پر منکشف فرما دیتا ہے۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جن اشعار میں شریعت کے خلاف اور عقائد کے منافی کوئی بات نہ ہو اور فحش کذب شامل نہ ہو انہیں پڑھنا اور سننا جائز ہے۔
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نکاح کے بعد رخصت کرا کر انصار کے ایک شخص کے ہاں لائی گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا کہ کیا تمہارے ساتھ کھیل یعنی دف اور گانا نہیں ہے (یعنی شریعت نے شادی بیاہ میں جس دف کے بجانے کی اجازت دی ہے اور جس قسم کے گیت جائز قرار دیئے ہیں تمہاری شادی ان چیزوں سے خالی کیوں ہے؟ کیونکہ انصار تو ان چیزوں کو بہت پسند کرتے ہیں ( بخاری)

یہ حدیث شیئر کریں