نکاح کی طلب اجات کے وقت عورت کی خاموشی ہی اس کی رضا ہے
راوی:
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " اليتيمة تستأمر في نفسها فإن صمتت فهو إذنها وإن أبت فلا جواز عليها " . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي
(2/210)
3134 – [ 9 ] ( لم تتم دراسته )
ورواه الدارمي عن أبي موسى
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بالغہ کنواری عورت سے اس کے نکاح کے بارے میں اجازت حاصل کی جائے اور اگر وہ طلب اجازت کے وقت خاموش رہے تو اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے اور اگر وہ انکار کر دے تو اس پر جبر نہ کیا جائے ( ترمذی ابوداؤد، نسائی) دارمی نے اس روایت کو حضرت ابوموسی سے نقل کیا ہے۔
تشریح :
شادی بیاہ کا معاملہ انسانی زندگی کا بڑا اہم موڑ ہوتا ہے اس موڑ پر زوجین کی مرضی وخواہش کے علی الرغم والدین اور ولی و سرپرست کا کوئی بھی فیصلہ اور اس میں ادنی درجہ کی کوتاہی اور غیر دانشمندی زوجین کی پوری زندگی کو جہنم بنا دیتی ہے ۔ اس لئے شریعت نے ہر بالغ مسلمان کو خواہ مرد ہو یا عورت یہ حق دیا ہے کہ وہ اس مرحلہ پر اپنی مرضی و خواہش اور اپنی پسند و ناپسند کا پورا پورا اظہار کرے ۔ خاص طور پر عورتوں کے بارے میں ان کے ماں باپ اور ولی سرپرست پر زیادہ زور دیا گیا ہے کہ وہ اس معاملہ میں اپنی ذاتی پسند و ناپسند ہی کو مدار قرار نہ دیں بلکہ عورت کو خود بھی سوچنے سمجھنے کا موقع دیں اور اس کی اجازت و مرضی ہی کو اصل فیصلہ سمجھیں۔ پھر اس کی اجازت کے بارے میں یہ آسانی بھی دی گئی ہے کہ اگر کوئی عورت شرم وحیا کی وجہ سے اپنی اجازت و مرضی کا زبان سے اظہار نہیں کر سکتی تو اس کی خاموشی ہی کو اس کی اجازت سمجھا جائے۔
لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ عورت کی خاموشی کو اس کی اجازت کا قائم مقام ہونا صرف اس کے ولی کے حق میں ہے یعنی عورت اگر اپنے ولی کی طلب اجازت کے موقع پر خاموش رہے تو اس کی خاموشی اس کی اجازت سمجھی جائے گی اور اگر ولی کے علاوہ کوئی اور اجازت طلب کرے تو اس صورت میں عورت کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ زبان سے اجازت دے۔