مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ معاملات میں نرمی کرنے کا بیان ۔ حدیث 34

تم دوسروں کے معاملہ میں نرمی کرو اللہ تعالیٰ تمہارے معاملہ میں نرمی کرے گا

راوی:

وعن حذيفة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن رجلا كان فيمن قبلكم أتاه الملك ليقبض روحه فقيل له : هل علمت من خير ؟ قال : ما أعلم . قيل له انظر قال : ما أعلم شيئا غير أني كنت أبايع الناس في الدنيا وأجازيهم فأنظر الموسر وأتجاوز عن المعسر فأدخله الله الجنة "وفي رواية لمسلم نحوه عن عقبة بن عامر وأبي مسعود الأنصاري " فقال الله أنا أحق بذا منك تجاوزوا عن عبدي "

حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگو (یعنی گزشتہ امتوں میں ) سے ایک شخص کا واقعہ ہے کہ جب اس کے پاس موت کا فرشتہ اس کی روح قبض کرنے آیا تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا تو نے کوئی نیک کام کیا ہے؟ اس نے کہا مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے کوئی نیک کام کیا ہوا اس سے پھر کہا گیا کہ اچھی طرح سوچ لے اس نے کہا کہ مجھے قطعًا یاد نہیں آ رہا ہے ہاں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میں دنیا میں جب لوگوں سے خریدوفروخت کے معاملات کیا کرتا تھا تو تقاضہ کے وقت یعنی مطالبات کی وصولی میں ان پر احسان کیا کرتا تھا بایں طور کہ مستطیع لوگوں کو تو مہلت دے دیتا تھا اور جو نادار ہوتے ان کو معاف کر دیتا تھا (یعنی اپنے مطالبات کا کوئی حصہ یا پورا مطالبہ ان کے لئے معاف کر دیتا تھا) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اسی عمل سے خوش ہو کر اس کو جنت میں داخل کر دیا (بخاری ومسلم)
اور مسلم کی ایک اور روایت میں جو عقبہ ابن عامر اور ابومسعود انصاری نے اسی کے مثل (یعنی کچھ الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ) نقل کی ہے یہ الفاظ ہیں کہ جب اس شخص نے اپنا یہ عمل بیان کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اس کا یعنی معاف کرنے کا حق تجھ سے زیادہ رکھتا ہں اور پر فرشتوں سے کہا کہ میرے اس بندے سے درگزر کرو۔

تشریح : (اتاہ الملک) سے مرادی تو یہ ہے کہ خود حضرت عزرائیل علیہ السلام ہی اس کی روح قبض کرنے آئے تھے یا پھر یہ کہ ان فرشتوں میں سے کوئی فرشتہ آیا ہوگا جو حضرت عزرائیل علیہ السلام کے مددگار و ماتحت ہیں لیکن اغلب یہ ہے کہ خود حضرت عزرائیل علیہ السلام ہی آئے ہوں گے کیونکہ قبض روح کے سلسلے میں زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ ارواح قبض کرنے کا کام حضرت عزرائیل علیہ السلام ہی انجام دیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
ا یت (قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم)
کہہ دیجئے کہ تمہیں وہ ملک الموت (عزرائیل علیہ السلام) مارتا ہے جو تم پر اس کام کے لئے متعین ہے
چنانچہ حضرت عزارئیل علیہ السلام جب روح قبض کر لیتے ہیں تو جو اچھی یعنی پاکباز روح ہوتی ہے اسے رحمت کے فرشتے لے لیتے ہیں اور جو بری روح ہوتی ہے وہ عذاب کے فرشتوں کی نگرانی (CUSTODY) میں چلی جاتی ہے لیکن اتنی بات ملحوظ رہے کہ ملک الموت (خواہ وہ عزرائیل ہوں یا کوئی اور فرشتہ) روح قبض کرنے کا صرف ایک ظاہری ذریعہ بنتا ہے ورنہ حقیقت میں تو روح قبض کرنے والا اور موت طاری کرنیوالا اللہ تعالیٰ ہی ہے جیسا کہ خود اسی کا ارشاد ہے آیت (اللہ یتوفی الانفس حین موتہا) ہر نفس کو اس کی موت کے وقت اللہ تعالیٰ ہی مارتا ہے
فقیل لہ (تو اس سے پوچھا گیا) اس کے بارے میں بھی دونوں احتمال ہیں یا تو اس سے یہ سوال اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا یا فرشتوں نے یہ بات پوچھی نیز وقت سوال کے سلسلے میں زیادہ واضح بات تو یہ ہے کہ اس شخص سے یہ سوال روح قبض کرنے سے پہلے کیا گیا تھا جیسا کہ حدیث کے ابتدائی الفاظ سے مفہوم ہوتا ہے لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ یہ سوال روح قبض ہونے کے بعد قبر میں کیا گیا ہو گا جیسا کہ شیخ مظہر کا قول ہے اور علامہ طیبی نے ایک یہ احتمال بھی بیان کیا ہے کہ دراصل یہ سوال قیامت میں کیا جائے گا۔
بہرکیف اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مطالبات کی وصولی میں مستطیع کو مہلت دینا اور نادار شخص کو معاف کر دیا بڑے ثواب کی چیز ہے

یہ حدیث شیئر کریں