اپنی منسوبہ کو نکاح سے پہلے دیکھ لینا مستحب ہے
راوی:
عن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا خطب أحدكم المرأة فإن استطاع أن ينظر إلى ما يدعوه إلى نكاحها فليفعل " . رواه أبو داود
(2/204)
3107 – [ 10 ] ( صحيح )
وعن المغيرة بن شعبة قال خطبت امرأة فقال لي رسول الله صلى الله عليه و سلم : " هل نظرت إليها ؟ " قلت : لا قال : " فانظر إليها فإنه أحرى أن يؤدم بينكما " . رواه أحمد والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي
حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ نکاح کا پیغام بھیجے تو اگر وہ اس عورت کے ان اعضاء کو دیکھنے پر قادر ہو جو اس کو نکاح کی رغبت دلاتے ہیں (یعنی ہاتھ اور چہرہ تو ایک نظر دیکھ لے ( ابوداؤد)
تشریح :
جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ اپنی منسوبہ کو نکاح کا پیغام بھیجنے سے پہلے ایک نظر دیکھ لینا مستحب ہے کیونکہ اگر وہ عورت پسند آگئی اور طبیعت کو بھا گئی تو اس نکاح کے بعد وہ اس عورت کیوجہ سے بدکاری سے بچا رہے گا جو نکاح کا اصل مقصود ہے اس موقع پر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ایک موقع پر جو یہ فرمایا گیا ہے کہ کسی عورت سے اس کے حسن وجمال کی وجہ سے نکاح نہ کیا جائے تو اس حکم کا یہ مقصد نہیں ہے کہ حسن وجمال کو ملحوظ ہی نہ رکھا جائے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ کسی حسین وجمیل عورت سے نکاح کرنے میں کوئی دینی نقصان و فساد ہو تو اس دینی نقصان کوتاہی سے بالکل صرف نظر کر کے اس سے محض اس بناء پر نکاح نہ کیا جائے کہ وہ حسن و جمال کی حامل ہے۔
اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے منگنی کا ارادہ کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تم نے اس عورت کو دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس عورت کو ایک نظر دیکھ لو کیونکہ دیکھ لینا بہت مناسب و بہتر ہے ( احمد ترمذی نسائی (ابن ماجہ دارمی)
تشریح :
یعنی اگر تم اپنی منسوبہ کو ایک نظر دیکھ لینے کے بعد اس سے نکاح کرو گے تو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت ، الفت بہت زیادہ ہوگی کیونکہ جب منسوبہ کو دیکھ لینے کے بعد نکاح ہوتا ہے تو عام طور پر کوئی پچھتاوا نہیں ہوتا اور نہ اپنے اس انتخاب پر کوئی شرمندگی و پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔