وہ تین چزیں جن میں نحوست ہوتی ہے
راوی:
وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " الشؤم في المرأة والدار والفرس " . متفق عليه . وفي رواية : " الشؤم في ثلاثة : في المرأة والمسكن والدابة "
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت گھر اور گھوڑے میں نحوست ہوتی ہے، اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے عورتوں میں ، مکان میں، اور جانور میں ( بخاری ومسلم)
تشریح :
شوم ضد ہے" یمن" کی جس کے معنی ہیں بے برکتی اور اسی کو نحوست کہتے ہیں، لہذا حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ان تین چیزوں میں نحوست ہوتی تو تفصیل کے ساتھ سمجھ لیجئے کہ نحوست سے کیا مراد ہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ گھر کی نحوست سے گھر کی تنگی اور بری ہمسائیگی مراد ہے یعنی جو گھر تنگ وتاریک ہو اور اس کا پڑوس برا ہو تو وہ گھر تکلیف و پریشانی کا باعث ہو جاتا ہے عورت کی نحوست سے مہر کی زیادتی اور اس کی بدمزاجی وزبان درازی اور بانجھ پن مراد ہے یعنی جس عورت کا مہر زیادہ مقرر کیا گیا ہو وہ بد مزاجی وتند خو زبان دراز ہو اور یہ کہ بانجھ ہو تو ایسی عورت راحت وسکون کی بجائے اذیت وکوفت کا ذریعہ بن جاتی ہے اسی طرح گھوڑے کی نحوست سے اس کا شوخ ہونا مٹھا قدم ہونا اور اس پر وار ہو کر جہاد نہ کیا جانا مرا ہے یعنی جو گھوڑأ ایسا ہو کہ اپنی خوشی کی وجہ سے پریشان کرتا ہو، سست رفتار ہوا اور مَٹھا ہو اور اس پر سوار ہو کر جہاد کرنے کی بھی نوبت نہ آئی ہو تو وہ گھوڑا اپنے مالک کے لئے کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
کچھ علماء یہ کہتے ہیں کہ ان تین چیزوں میں نحوست کے اظہار کرنے کا مقصد دراصل یہ بتانا ہے کہ اگر بالفرض کسی چیز میں نحوس کا ہونا اپنی کوئی حقیقت رکھتا تو ان تین چیزوں میں نحوست ہوتی گویا اس تشریح سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ کسی چیز میں نحوست کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا چنانچہ یہ کہنا کہ فلاں چیز منحوس ہے یا فلاں چیز میں نحوست ہے صرف ایک واہمہ کے درجہ کی چیز ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اگر واقعۃً نحوست کسی چیز میں ہوا کرتی تو ان تین چیزوں میں ضرور ہوتی کیونکہ یہ تین چیزیں نحوست کے قابل ہو سکتی تھی ۔ چنانچہ یہ ارشاد ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر کے دائرہ سے باہر ہوتی تو وہ نظربد تھی یعنی کائنات کی ہر جنبش وحرکت اور یہاں کا ذرہ ذرہ پابند تقدیر ہے اس عالم میں صرف وہی ظہور میں آتا ہے جو پہلے سے مقدر ہو چکا ہو کوئی چیز تقدیر سے باہر نہیں ہے اور اگر بفرض محال کوئی چیز مقدرات کے دائرہ سے باہر ہوتی تو وہ نظربد ہے ( کہ جسے عام طور پر نظر لگنا کہتے ہیں) لہذا جس طرح اس ارشاد کا مقصد یہ ظاہر کرنا نہیں ہے کہ نظربد تقدیر کے دائرہ کار سے باہر ہے اسی طرح مذکورہ بالا تینوں چیزوں کے ساتھ نحوس کا ذکر کرنے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ان تین چیزوں میں نحوست ہوتی ہے۔
اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ دراصل امت کے لوگوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اگر کسی کے پاس ایسا مکان ہو جس میں رہنا وہ نا پسند کرتا ہو یا کسی کی ایسی بیوی ہو جس کے ساتھ صحبت ومباشرت اسے ناگوار ہو یا کسی کے پاس ایسا گھوڑا ہو جو اسے اچھا معلوم نہ ہوتا ہو تو ان صورتوں میں یہ چیزیں چھوڑ دینی چاہئیں یعنی مکان والا اس مکان سے منتقل ہو جائے بیوی والا اس کو طلاق دیدے اور گھوڑے والا اس گھوڑے کو بیچ دے۔
حدیث کی ان توضیحات کی روشنی میں یہ بات صاف ہو گئی کہ یہ ارشاد گرامی طیرۃ منہی عنہا ( بد شگونی لینے کی ممانعت کے منافی نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر لوگ جو یہ کہدیا کرتے ہیں کہ یہ مکان منحوس ہے یافلاں عورت یا فلاں گھوڑا سبز قدم ہے تو یہ بات یہاں مراد نہیں ہے۔