جوانوں کو نکاح کرنے کا حکم
راوی:
عن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء "
حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے جوانوں کے گروہ! تم میں سے جو شخص مجامعت کے لوازمات (یعنی بیوی بچوں کا نفقہ اور مہر ادا کرنے) کی استطاعت رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ نکاح کر لے کیونکہ نکاح کرنا نظر کو بہت چھپاتا ہے اور شرم گاہ کو بہت محفوظ رکھتا ہے ( یعنی نکاح کر لینے سے اجنبی عورت کی طرف نظر مائل نہیں ہوتی اور انسان حرام کاری سے بچتا ہے ) اور جو شخص جماع کے لوازمات کی استطاعت نہ رکھتا ہو، اسے چاہئے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ رکھنا اس کے لئے خصی کرنے کا فائدہ دے گا (یعنی جس طرح خصی ہو جانے سے جنسی ہیجان ختم ہو جاتا ہے اسی طرح روزہ رکھنے سے بھی جنسی ہیجان ختم ہو جاتا ہے (بخاری ومسلم)
تشریح :
اس خطاب عام کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوانوں کو نکاح کی ترغیب دلاتے ہوئے نکاح کے دو بڑے فائدے ظاہر فرمائے ہیں ایک تو یہ کہ انسان نکاح کرنے سے اجنبی عورتوں کی طرف نظر بازی سے بچتا ہے اور دوسری طرف حرام کاری سے محفوظ رہتا ہے۔
جوانی کی حد
انسان بالغ ہونے کے بعد جوان کہلاتا ہے لیکن جوانی کی یہ حد کہاں تک ہے؟ اس میں اختلاف ہے چنانچہ امام شافعی کے نزدیک جوانی کی حد تیس برس کی عمر تک ہے جبکہ امام اعظم ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ ایک انسان چالیس برس کی عمر تک جوان کہلانے کا مستحق رہتا ہے۔