حضرت عمرکے تقوی اور احتیاط کی ایک مثال
راوی:
وعن زيد بن أسلم أنه قال : شرب عمر بن الخطاب لبنا وأعجبه وقال للذي سقاه : من أين لك هذا اللبن ؟ فأخبره أنه ورد على ماء قد سماه فإذا نعم من نعم الصدقة وهم يسقون فحلبوا لي من ألبانها فجعلته في سقائي وهو هذا فأدخل عمر يده فاستقاءه . رواه البيهقي في شعب الإيمان
حضرت زید ابن اسلم جو حضرت عمر فاروق کے آزاد کردہ غلام تھے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر ابن خطاب نے دودھ پیا جو ان کو عجیب معلوم ہوا انہوں نے اس شخص سے کہا جس نے دودھ لا کر پلایا تھا پوچھا کہ یہ دودھ تمہیں کہاں سے ملا تو اس نے ان کو بتایا کہ وہ (یعنی میں) پانی کے ایک چشمے یا کنویں پر گیا تھا اس نے چشمے یا کنویں کا نام بھی بتایا وہاں میں نے دیکھا کہ زکوۃ کے کچھ جانور (یعنی اونٹ وبکری وغیرہ پانی پینے کے لئے آئے ہوئے) ہیں اور ان جانوروں کے نگران ان کا دودھ نکال کر لوگوں کو پلا رہے ہیں چنانچہ انہوں نے میرے لئے بھی دودھ دوہا جسے میں نے لے کر اپنی مشک میں ڈال لیا یہ وہی دودھ تھا یہ سن کر حضرت عمر نے اپنے حلق میں ہاتھ ڈال کر قے کر دی اور اس دودھ کو پیٹ سے باہر نکا دیا کیونکہ وہ زکوۃ کا مال تھا جو ان کے لے جائز نہیں تھا ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔
تشریح :
حضرت سید جمال الدین محدث نے لکھا ہے کہ یہ حدیث مشکوک ہے اکثر نسخوں میں اس موقع پر مذکور نہیں ہے چنانچہ ہم نے مشکوۃ کے جس نسخے میں اپنے استاد سے حدیثیں سماعت کی ہیں اس میں بھی یہاں یہ حدیث نہیں البتہ اس کے حاشیے میں لکھی ہوئی ہے اس لئے مناسب یہی ہے کہ یہ حدیث اس باب سے محذوف رکھی جائے ویسے بھی یہ حدیث چونکہ مشکوۃ کی کتاب الزکوۃ میں چند الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ نقل کی جا چکی ہے اس لئے یہاں دوبارہ نقل کرنا مشکوۃ کی ترتیب کے مطابق موزوں نہیں ہے ۔ لہذا جن نسخوں میں اس موقع پر یہ حدیث نقل نہیں کی گئی ہے ان میں پہلی حدیث یعنی حضرت ابوبکر کی روایت کے بعد یہ عبارت (رواہما البیہقی) لکھا ہوا ہے۔