مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ وصیتوں کا بیان ۔ حدیث 296

اپنے ترکہ کے تہائی حصہ میں وصیت کی جاسکتی ہے

راوی:

وعن سعد بن أبي وقاص قال : مرضت عام الفتح مرضا أشفيت على الموت فأتاني رسول الله صلى الله عليه و سلم يعودني فقلت : يا رسول الله : إن لي مالا كثيرا وليس يرثني إلا ابنتي أفأوصي بمالي كله ؟ قال : " لا " قلت : فثلثي مالي ؟ قال : " لا " قلت : فالشطر ؟ قال : " لا " قلت : فالثلث ؟ قال : " الثلث والثلث كثير إنك أن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس وإنك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله إلا أجرت بها حتى اللقمة ترفعها إلى في امرأتك "
(2/196)

الفصل الثاني
(2/196)

3072 – [ 3 ] ( لم تتم دراسته )
عن سعد بن أبي وقاص قال : عادني رسول الله صلى الله عليه و سلم وأنا مريض فقال : " أوصيت ؟ " قلت : نعم قال : " بكم ؟ " قلت : بمالي كله في سبيل الله . قال : " فما تركت لولدك ؟ " قلت : هم أغنياء بخير . فقال : " أوص بالعشر " فما زالت أناقصه حتى قال : " أوص بالثلث والثلث كثير " . رواه الترمذي

اور سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال اتنا سخت بیمار ہوا کہ موت کے کنارہ پر پہنچ گیا چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس بہت مال ہے مگر ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے تو کیا میں اپنے سارے مال کے بارے میں وصیت کر جاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں پھر میں نے عرض کیا کہ کیا دو تہائی مال کے بارے میں وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا نصف کے لئے فرمایا نہیں ، میں نے پوچھا کہ ایک تہائی کے لئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں تہائی مال کے بارے میں وصیت کر سکتے ہو اگرچہ یہ بھی بہت ہے اور یاد رکھو اگر تم اپنے وارثوں کو مال دار وخوش حال چھوڑ جاؤ گے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو مفلس چھوڑ جاؤ اور وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں جان لو تم اپنے مال کا جو بھی حصہ اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے جذبہ سے خرچ کرو گے تو تمہیں اس کے خرچ کا ثواب ملے گا یہاں تک کہ تمہیں اس لقمہ کا بھی ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ تک لے جاؤ گے ( بخاری ومسلم)

تشریح :
میرا کوئی وارث نہیں ہے" سے حضرت سعد کی مراد یہ تھی کہ ذوی الفروض سے میرا کوئی وارث نہیں ہے یا یہ کہ ایسے وارثوں میں سے کہ جن کے بارے میں مجھے یہ خوف نہ ہو کہ وہ میرا مال ضائع کر دیں گے علاوہ ایک بیٹی کے اور کوئی وارث نہیں ہے، حضرت سعد کے اس جملہ کی یہ تاویل اس لئے کی گئی ہے کہ حضرت سعد کے کئی عصبی وارث تھے۔
یہ حدیث جہاں اس بات کی دلیل ہے کہ مال جمع کرنا مباح ہے وہیں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ وارثوں کے حق میں عدل وانصاف کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس میت کے وارث موجود ہوں تو اس کی وصیت اس کے تہائی مال سے زائد میں جاری نہیں ہوتی ، البتہ اگر وہ ورثاء اپنی اجازت وخوشی سے چاہیں تو ایک تہائی سے زائد میں بھی بلکہ سارے ہی مال میں وصیت جاری ہو سکتی ہے بشرطیکہ سب وارث عاقل و بالغ اور موجود ہوں، اور جس میت کا کوئی وارث نہ ہو تو اس صورت میں بھی اکثر علماء کا یہی مسلک ہے کہ اس کی وصیت بھی ایک تہائی سے زائد میں جاری نہیں ہو سکتی۔ البتہ حضرت امام اعظم اور ان کے متبعین علماء اس صورت میں ایک تہائی سے زائد میں بھی وصیت جاری کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں نیز حضرت امام احمد اور حضرت اسحق کا بھی یہی قول ہے۔
اس حدیث میں اس بات کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے ان کے حق میں ہمیشہ خیر خواہی کا جذبہ رکھا جائے اور وارثوں کے تئیں شفقت ومحبت ہی کے طریقے کو اختیار کیا جائے علاوہ ازیں اس حدیث سے اور بھی کئی باتیں معلوم ہوئیں ۔ اول یہ کہ اپنا مال غیروں کو دینے سے افضل یہ ہے کہ اس کو اپنے قرابتداروں پر خرچ کیا جائے دوم یہ کہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنے سے ثواب ملتا ہے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کی طلب پیش نظر ہو اور سوم یہ کہ اگر کسی مباح کام میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کی نیت کر لی جائے تو وہ مباح کام بھی طاعت و عبادت بن جاتا ہے چنانچہ بیوی اگرچہ جسمانی ودنیوی لذت و راحت کا ذریعہ ہے اور خوشی ومسرت کے وقت اس کے منہ میں نوالہ دینا محض ایک خوش طبعی ہے جس کا طاعت وعبادت اور امور آخرت سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا کہ اگر بیوی کے منہ میں نوالہ دینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کی طلب کی نیت ہو تو اس میں ثواب ملتا ہے لہذا اس کے علاوہ دوسری حالتوں میں تو بطریق اولی ثواب ملے گا۔
الفصل الثانی
حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ جب میں بیمار تھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پوچھنے آئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے وصیت کرنے کا ارادہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کتنے مال کی وصیت کا تم نے ارادہ کیا ہے؟ میں' نے عرض کیا کہ میں نے تو اللہ کی راہ میں اپنے سارے مال کی وصیت کرنے کا ارادہ کر لیا ہے آپ نے فرمایا اولاد کے لئے کیا چھوڑا میں نے عرض کیا کہ وہ خود مال دارخوشحال ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وصیت کرنا ہی چاہتے ہو تو اپنے مال کے دسویں حصہ کے بارے میں وصیت کر دو حضرت سعد کہتے ہیں کہ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی اس مقدار کو بار بار کم کہتا رہا تو میرے اصرار پر آپ نے فرمایا کہ اچھا تہائی مال کے بارے میں وصیت کر دو اگرچہ یہ تہائی بھی بہت ہے ( ترمذی)

یہ حدیث شیئر کریں