وصیت نامہ لکھ رکھنے کا حکم
راوی:
عن ابن عمر رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما حق امرئ مسلم له شيء يوصي فيه يبيت ليلتين إلا ووصية مكتوبة عنده "
حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس مسلمان مرد کے مال یا آپسی تعلقات کے معاملے میں کوئی بات وصیت کے قابل ہو تو اسے چاہئے کہ وہ دو راتیں بھی وصیت لکھ رکھے بغیر نہ گزارے (بخاری ومسلم)
تشریح :
مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے ذمہ کسی کا کوئی حق ہو یا لوگوں کا کوئی معاملہ اس کے سپرد ہو تو اسے چاہئے کہ وہ دو راتیں گزرنے سے پہلے وصیت نامہ لکھ کر رکھ لے دو راتوں سے مراد عرصہ قلیل ہے یعنی کم سے کم عرصہ بھی ایسا نہ گزرنا چاہئے کہ جس میں وصیت نامہ لکھا ہوا نہ رکھا ہو کیونکہ انسان کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ، نہ معلوم کس لمحہ زندگی کا سلسلہ منقطع ہو جائے اور وصیت نامہ کی عدم موجودگی میں ورثاء کے لا علم ہونیکی وجہ سے حق تلفی کا وبال اس دنیا سے اس کے ساتھ جائے ۔ علماء ظواہر اسی حدیث کے پیش نظر وصیت کے واجب ہونے کے قائل ہیں حالانکہ یہ حدیث عمومی طور پر وصیت کے واجب ہونے پر دلالت نہیں کرتی البتہ اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ جس شخص پر کسی کا قرض ہو یا اس کے پاس کسی کی امانت ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس قرض یا امانت کے بارے میں وصیت کر جائے۔
علماء لکھتے ہیں کہ جس معاملہ میں یعنی قرض اور امانت وغیرہ کے سلسلہ میں وصیت کرنا لازم ہو اس کا وصیت نامہ جلد سے جلد مرتب کر لینا مستحب ہے نیز یہ ضروری ہے کہ وصیت نامہ لکھ کر اس وصیت نامہ پر دو اشخاص کی گواہیاں ثبت کرا دی جائیں۔