مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ فرائض کا بیان ۔ حدیث 288

موالی آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے

راوی:

وعن تميم الداري قال : سألت رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما السنة في الرجل من أهل الشرك يسلم على يدي رجل من المسلمين ؟ فقال : " هو أولى الناس بمحياه ومماته " . رواه الترمذي وابن ماجه والدارمي

اور حضرت تمیم داری کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اس مشرک کے بارے میں کیا حکم ہے جو کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام لایا ہو یعنی وہ مسلمان اس نو مسلم کا مولیٰ ہوتا ہے یا نہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مسلمان جس کے ہاتھ پر وہ مشرک اسلام لایا ہے اس کی زندگی میں اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے اور مرنے کے بعد بھی سب سے زیادہ حقدار وہی ہے یعنی وہ مسلمان اس نو مسلم کا مولیٰ ہے ( ترمذی ابن ماجہ دارمی)

تشریح :
حضرت تمیم داری ایک جلیل القدر اور مشہور صحابی ہیں یہ پہلے عیسائی تھے پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت بخشی اور٩ھ میں مشرف باسلام ہوئے اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی زندگی خوف اللہ اور عبادت گزاری سے اس قدر معمور ہوئی کہ شب بیداری جیسے عظیم وصف میں امتیازی حیثیت کے مالک ہوئے رات میں ایک رکعت میں پورا قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے اور کبھی کبھی ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے صبح کر دیتے اتفاق سے ایک رات تہجد کی نماز نہ پڑھ سکے تو اپنے نفس کو اس کی اس طرح سزا دی کہ پورے ایک برس تک مسلسل سوئے نہیں حضرت تمیم داری کو ایک تاریخی امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مسجد میں چراغ روشن کیا ہے۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتا ہے تو وہ مسلمان اس نو مسلم کا مولیٰ ہو جاتا ہے چنانچہ ابتداء اسلام میں یہی حکم تھا کہ موالی آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ وہ سب سے زیادہ حقدار ہے کی مراد یہ ہے کہ مسلمان کرنیوالے پر یہ حق سب سے زیادہ ہے کہ وہ اس نو مسلم کی زندگی میں تو اس کی اعانت وخیرخواہی کرے اور اس کے مرنے کے بعد اس کی نماز جنازہ پڑھے۔

یہ حدیث شیئر کریں