باپ کی موجودگی میں دادی کو چھٹا صہ دلوائے جانے کا ایک خاص واقعہ
راوی:
وعن ابن مسعود قال في الجدة مع ابنها : إنها أول جدة أطعمها رسول الله صلى الله عليه و سلم سدسا مع ابنها وابنها حي . رواه الترمذي والدارمي والترمذي ضعفه
اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ انہوں نے اس جدہ کے بارے میں جس کا بیٹا موجود ہو یہ کہا کہ میراث دلوائی جانے والی وہ پہلی جدہ تھی جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیٹے کی موجودگی میں اسے چھٹا حصہ دلوایا تھا اور اس کا بیٹا زندہ تھا (ترمذی دارمی) اور امام ترمذی نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
تشریح :
صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص دادی اور باپ چھوڑ کر مرا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ترکہ میں سے دادی کو چھٹا حصہ دلوایا باوجودیکہ اس کا بیٹا یعنی میت کا باپ موجود تھا۔ حالانکہ علماء کا مسلک یہ ہے کہ اگر میت کا باپ موجود ہو تو اس کے ترکہ میں سے دادی کو کچھ نہیں ملتا گویا دادی اپنے بیٹے یعنی میت کے باپ کی موجودگی میں پوتے کے ترکہ سے محروم رہتی ہے مذکورہ بالا حدیث پر علماء نے اس لئے عمل نہیں کیا کہ یہ حدیث ضعیف ہے جس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا دلیل کے طور پر صحیح حدیث ہی اختیار کی جا سکتی ہے یا پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک خاص صورت تھی جس میں آپ نے جدہ کو اس کے بیٹے یعنی میت کے باپ کی موجودگی میں تبرعًا یعنی ازارہ احسان حصہ دلوایا تھا بطریق میراث نہیں دلوایا تھا