جس کا کوئی بھی وارث نہ ہو اس کا ترکہ بیت المال کے مصرف میں دیدیا جائے
راوی:
وعن بريدة قال : مات رجل من خزاعة فأتي النبي صلى الله عليه و سلم بميراثه فقال : " التمسوا له وارثا أو ذا رحم " فلم يجدوا له وارثا ولا ذا رحم فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أعطوا الكبر من خزاعة " . رواه أبو داود وفي رواية له : قال : " انظروا أكبر رجل من خزاعة "
(2/192)
3057 – [ 17 ] ( لم تتم دراسته )
وعن علي رضي الله عنه قال : إنكم تقرؤون هذه الآية : ( من بعد وصية توصون بها أو دين )
وإن رسول الله صلى الله عليه و سلم قضى بالدين قبل الوصية وأن أعيان بني الأم يتوارثون دون بني العلات الرجل يرث أخاه لأبيه وأمه دون أخيه لأبيه " . رواه الترمذي وابن ماجه وفي رواية الدارمي : قال : " الإخوة من الأم يتوارثون دون بني العلات . . . " إلى آخره
اور حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص مر گیا تو اس کی میراث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا کوئی وارث تلاش کرو (یعنی پہلے تو ذوی الفروض اور عصبات میں سے کوئی وارث ڈھونڈو اگر ان میں سے کوئی وارث نہ ملے تو) چاہے کوئی ذی رحم ہی وارث ہو چنانچہ تلاش کے بعد نہ تو ذوی الفروض وعصبات میں سے کوئی وارث پایا گیا اور نہ ذی رحم اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قبیلہ خزاعہ کے کسی بڑے بوڑھے کو دیدو (ابوداؤد) اور ابوداؤد ہی کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قبیلہ خزاعہ کے کسی بوڑھے کو دیکھو ( اور اس کو یہ میراث دیدو)
تشریح :
اس حدیث کی وضاحت بھی وہی ہے جو اوپر کی حدیث میں کی گئی ہے کہ اس شخص کا چونکہ کوئی بھی وارث نہیں تھا اس لئے اس کے ترکہ بیت المال میں داخل کیا جاتا لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مناسب سمجھا کہ اس کا ترکہ اس کے قبیلہ کے کسی بڑے بوڑھے کو دیدیا جائے کیونکہ ایسا شخص بیت المال کا مصرف بھی ہے اور اس کے قبیلہ کا ایک فرد ہونے اور اپنے بڑھاپے کی وجہ سے اس کا سب سے زیادہ مستحق بھی ہے۔
میت کے قرض کی ادائیگی اس کی وصیت کی تعمیل پر مقدم ہے
اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ ایک دین انہوں نے لوگوں سے کہا کہ تم اس آیت کو پڑھتے ہو (مِّنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوْصُوْنَ بِھَا اَوْ دَيْنٍ ) 4۔ النساء : 12) جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت پوری کرنے سے پہلے قرض ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بھی صادر فرمایا ہے کہ حقیقی بھائی وارث ہوتے ہیں نہ کہ سوتیلے بھائی (یعنی حقیقی بھائیوں کی موجودگی میں سوتیلے بھائیوں کو کچھ نہیں ملتا) اور یہ کہ آدمی اپنے حقیقی بھائی کا وارث ہوتا ہے نہ کہ سوتیلے بھائی کا یہ جملہ پہلے جملہ کی تاکید کے طور پر استعمال کیا گیا ہے (ترمذی ابن ماجہ) اور دارمی کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ وہ بھائی جو ماں میں بھی شریک ہوں یعنی باپ اور ماں دونوں میں شریک ہوں کہ جنہیں حقیقی بھائی کہتے ہیں ) وارث ہوتے ہیں نہ کہ وہ بھائی جو صرف باپ میں شریک ہوں یعنی سوتیلے بھائی آگے حدیث کے وہی الفاظ ہیں جو اوپر نقل ہوئے)
تشریح :
حدیث میں مذکورہ آیت کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ اگر میت نے کوئی وصیت کی ہے تو اس کو پوری کرنے کے بعد اور اگر اس کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اس کو ادا کرنے کے بعد اس کے ورثاء کو اس کی میراث تقسیم کی جائے گی ۔ گویا آیت کریمہ میں بظاہر وصیت کی تعمیل کو قرض کی ادائیگی پر مقدم کیا گیا ہے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وصیت کی تعمیل سے پہلے قرض ادا کرنے کا حکم دیتے تھے۔ چنانچہ اسی بارے میں حضرت علی نے لوگوں سے پوچھا کہ تم یہ آیت پڑھتے ہو کیا اس کی مراد بھی سمجھتے ہو یا نہیں؟ گویا اس طرح حضرت علی نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ یہ نہ سمجھ لینا کہ قرآن کریم کی اس آیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل میں کوئی تضاد نظر آتا ہے ۔ یا یہ کہ آیت کریمہ میں چونکہ وصیت کو مقدم کیا گیا ہے اس لئے وصیت کی تعمیل قرض کی ادائیگی پر مقدم ہے بلکہ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ آیت میں الفاظ کے اعتبار سے قرض کی ادائیگی کو اگرچہ بعد میں ذکر کیا گیا ہے لیکن حقیقت اور حکم کے اعتبار سے یہی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حکم کے ذریہ اس کو واضح کر دیا ہے ۔ اب رہی یہ بات کہ پھر آیت کریمہ میں وصیت کا ذکر پہلے کیوں ہے؟ تو اس کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ میت کی وصیت کی تعمیل چونکہ گراں گزر سکتی ہے اور اس میں کوتاہی ہو سکتی ہے اس لئے وصیت کے ذکر کو مقدم کر کے یہ آگاہی دی گئی ہے کہ میت کی تعمیل کو آسان اور غیر ضروری نہ سمجھا جائے بلکہ اسے ایک اہم اور ضروری چیز سمجھ کر پورا کیا جائے