مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ فرائض کا بیان ۔ حدیث 275

ابتداء اسلام کا ایک حکم

راوی:

وعن كثير بن عبد الله عن أبيه عن جده قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " مولى القوم منهم وحليف القوم منهم وابن أخت القوم منهم " . رواه الدارمي

اور حضرت کثیر بن عبداللہ اپنے والد (حضرت عبداللہ تابعی) اور وہ کثیر کے دادا (یعنی اپنے والد حضرت عمرو بن عوف مزنی صحابی) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی قوم کا مولیٰ اسی قوم میں سے ہے کسی قوم کا حلیف اسی قوم میں سے ہے اور کسی قوم کا بھانجا اسی قوم میں سے ہے (دارمی)

تشریح :
پہلی فصل میں حضرت انس کی جو روایت نمبر (٤) گرزی ہے اس کی تشریح میں مولیٰ کی وضاحت کی جا چکی ہے کسی قوم کا حلیف اسی قوم میں سے ہے کی وضاحت یہ ہے کہ پہلے اہل عرب میں یہ دستور تھا کہ دو شخص آپس میں قسم وحلف کے ذریعے یہ باہمی عہد و اقرار کر لیتے تھے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے رنج و راحت اور موت وحیات میں شریک رہیں گے ایک کا خون دوسرے کا خون ہوگا ایک کی صلح دوسرے کی صلح ہوگی اور ایک کی جنگ دوسرے کی جنگ ہوگی ہم میں سے کسی پر کوئی تاوان لازم ہوگا تو دوسرا ادا کرے گا اسی طرح ایک دوسرے کی میراث کے بارے میں بھی ایک دوسرا یہ اقرار کرتا تھا کہ میں تمہارا وارث ہوں گا اور تم میرے وارث ہو گے چنانچہ میراث کے سلسلہ میں اسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی اس پر عمل ہوتا رہا مگر جب قرآن کریم میں وراثت کا ایک واضح ضابطہ نازل کیا گیا اور ورثاء اور ان کے حصے میں متعین و مقرر کر دئیے گئے تو یہ پرانا دستور بھی ختم ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بھی منسوخ ہو گیا اور کسی قوم کا بھانجا اسی قوم میں سے اس کی وضاحت بھی حضرت انس ہی کی روایت نمبر (٥) کی تشریح کے تحت کی جا چکی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں