میت کا ترکہ پہلے ذوی الفروض کو دو
راوی:
وعن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولى رجل ذكر "
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میراث کے حصے جو قرآن کریم میں متعین کئے گئے ہیں حصہ داروں کو دو پھر جو کچھ بچے وہ میت کے اس مرد وارث عصبہ کا حق ہے جو میت کا سب سے قریبی عزیز ہو (بخاری ومسلم)
تشریح :
مطلب یہ ہے کہ میت کا ترکہ سب سے پہلے ان لوگوں کو دو جن کے حصے قرآن کریم میں مقرر ہیں کہ جنہیں ذوی الفروض کہا جاتا ہے ان کو معینہ حصے دینے کے بعد جو کچھ بچے وہ عصبات کو دو اور پھر عصبات میں مقدم وہ عصبہ ہیں جو میت کا سب سے قریبی عزیز ہو چنانچہ قریب کے عصبہ کی موجودگی میں بعید کا عصبہ میت کے ترکہ کا وارث نہیں ہوتا ابتداء باب میں ذوی الفروض اور عصبات کا تفصیلی ذکر کیا جا چکا ہے۔
حدیث کے آخری الفظ "رجل ذکر "میں لفظ ذکر تاکید کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے اور اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ خنثی سے احتراز ہو جائے۔
شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ یہ ارشاد گرامی اس بات کی دلیل ہے کہ بعض وارث بعض دوسرے وارثوں کے حق میں حاجب یعنی میراث سے روکنے والے) ہوتے ہیں چنانچہ حجب یعنی میراث سے روکنا دو طرح سے ہوتا ہے اول حجب نقصان دوم حجب حرمان اس موقع پر اجمالی طور پر ان دونوں کی یہ تعریف جان لیجئے کہ بعض وارث ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے دوسرے وارثوں کا حصہ کم ہو جاتا ہے۔ مثلا جب میت کے اولاد نہ ہو تو میت کی ماں کو ترکہ میں سے ایک تہائی ملتا ہے۔ اور اگر میت کی اولاد موجود ہو تو میت کی ماں کو صرف چھٹا حصہ ملتا ہے اس کو حجب نقصان کہتے ہیں اسی طرح بعض وارث ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی وجہ سے بعض عزیزوں کو میراث میں سے کچھ بھی نہیں ملتا مثلا میت کے بیٹے کے موجودگی میں بھائی میراث سے بالکل محروم رہ جاتا ہے۔ اس کو حجب حرمان کہتے ہیں