جب لقطہ اٹھاؤ تو کسی کو گواہ بنالو
راوی:
وعن عياض بن حمار قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من وجد لقطة فليشهد ذا عدل أو ذوي عدل ولا يكتم ولا يغيب فإن وجد صاحبها فليردها عليه وإلا فهو مال الله يؤتيه من يشاء " . رواه أحمد وأبو داود والدارمي
اور حضرت عیاض بن حمار کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی جگہ کوئی گری پڑی چیز پائے تو چاہئے کہ وہ کسی عادل شخص کو یا فرمایا کہ دو عادل شخصوں کو گواہ بنا لے اور اس کی تشہیر و اعلان نہ کر کے) اس لقطہ کو چھپائے نہیں اور نہ اسے کسی دوسری جگہ بھیج کر غائب کر دے۔ پھر اگر مالک آ جائے تو وہ لقطہ اس کے حوالے کر دے اور اگر مالک ہاتھ نہ لگے تو پھر وہ اللہ کا دیا ہوا مال ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے غیب سے مال دیتا ہے ( احمد ابوداؤد دارمی)
تشریح :
جب کوئی شخص لقطہ اٹھائے تو وہ اس وقت کسی کو اس بات پر گواہ بنالے کہ مجھے یہ چیز بطور لقطہ ملی ہے تا کہ کوئی دوسرا شخص مثلا مالک نہ تو اس پر چوری وغیرہ کی تہمت لگا سکے اور نہ کمی بیشی کا دعوی کر سکے گواہ بنا لینے میں ایک مصلحت و فائدہ یہ بھی ہے کہ اس صورت میں اس کا نفس حرص وطمع میں مبتلا نہیں ہوگا کیونکہ بغیر گواہ کے یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ نفس بدنیتی میں مبتلا ہو جائے اور یہ سوچ کر کہ جب کوئی گواہ نہیں ہے تو یہ چیز مالک کو دینے کی بجائے خود کیوں نہ رکھ لوں جب کہ گواہ بنا لینے سے نہ صرف یہ کہ طمع نہیں ہوتی بلکہ وہ لقطہ مالک کے حوالہ کرنا یوں بھی ضروری ہو جاتا ہے پھر اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اٹھانے والے کی ناگہانی موت کے بعد اس کے ورثاء اس لقطہ کو اپنی میراث اور ترکہ میں داخل نہیں کر سکتے۔
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ گواہ بنا لینے کا یہ حکم بطریق استحباب ہے جب کہ بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم بطریق وجوب ہے ۔ اس حدیث میں تو یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ کا دیا ہوا مال ہے جب کہ اوپر کی حدیث میں اسے اللہ کا دیا ہوا رزق ہے کہا گیا ہے لہذا ان دونوں سے مراد حلال ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مالک کے نہ آنے کی صورت میں وہ لقطہ ایک ایسا حلال مال ہے جس سے وہ شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جسے اللہ نے غیب سے دیا ہے ۔ ہاں اگر بعد میں مالک آجائے تو پھر اس کا بدل دینا ہوگا جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے۔