بے وارث بچے کو اٹھانے کا مسئلہ
راوی:
لقیط (یعنی بے وارث بچہ ) اگر کہیں پڑا ہوا ملے تو اسے اٹھا لینا مستحب ہے اور اگر اس کے ہلاک ہو جانے کا خوف ہو تو پھر اسے اٹھانا واجب ہوگا۔ ایسا بچہ جب تک مملوک غلام ہونا ثابت نہ ہو حر (یعنی آزاد ہے ) لقیط کا نفقہ اور اس کا خون بہابیت المال کے ذمہ ہوگا۔ اسی طرح اس کی میراث بھی بیت المال کی تحویل میں رہے گی ۔ جس شخص نے لقیط کو اٹھا لیا ہے اس سے کسی اور کو لینے کا اختیار نہیں ہوگا اگر کسی شخص نے یہ دعوی کیا کہ یہ میرا بچہ ہے تو قسم کے ساتھ اس کا قول معتبر ہوگا اور اس بچہ کا نسب اس سے ثابت ہو جائے گا ۔ اور اگر دو آدمی ایک ساتھ اس کا دعوی کریں تو اس کو لینے کا زیادہ حقدار وہ شخص ہوگا جو اس بچہ کے بدن میں کوئی علامت بتائے اور دیکھنے میں وہ علامت موجود پائی جائے مثلا وہ یہ بتائے کہ اس کی پیٹھ پر مسہ ہے اور پھر جب دیکھا جائے تو اس کی پیٹھ پر مسہ موجود ہو۔ اگر کوئی غلام یہ دعوی کرے کہ یہ لقیط میرا لڑکا ہے تو اس کا دعوی صحیح تسلیم کیا جائے گا لیکن وہ بچہ مسلمان رہے گا بشرطیکہ وہ مسلمانوں کی آبادی یا مسلمانوں کے محلہ میں ملا ہو اور اگر وہ ذمیوں کی بستی میں یا ان کے محلہ میں یا ان کے گرجا و مندر میں ملا ہوگا تو اس صورت میں وہ ذمی رہے گا ۔ اگر لقطی کے ساتھ بندھا ہوا کچھ مال یا اس کے جسم پر کوئی زیور وغیرہ ملے تو اسے قاضی کے حکم کے بعد لقیط ہی پر خرچ کیا جائے گا اگرچہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ قاضی کے حکم و اجازت کے بغیر بھی اس کے مال کو اس پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ صحیح قول کے مطابق اٹھانے والے کے لئے یہ تو جائز ہے کہ وہ اس لقیط کو کوئی پیشہ سیکھنے کے لئے کسی پیشہ ور کے سپرد کر دے مگر اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس کا نکاح کر دے یا اس کے مال میں تصرف کرے اور یا اس سے محنت و مزدوری کرائے۔