مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ گری پڑی چیز اٹھانے کا بیان ۔ حدیث 248

لقطہ کے معنی اور اس کا مفہوم

راوی:

لقطہ لام کے پیش اور قاف کے زیر کے ساتھ یعنی لقطہ بھی منقول ہے اور قاف کے جزم کے ساتھ یعنی لقطہ بھی لکھا اور پڑھا جاتا ہے ۔ محدثین کے ہاں قاف کے زبر کے ساتھ یعنی لقطہ مشہور ہے۔
لقطہ اس چیز کو کہتے ہیں جو کہیں (مثلًا راستہ وغیرہ میں) گری پڑی پائی جائے اور اس کے مالک کا کوئی علم نہ ہو۔ اس بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کہیں کوئی گری پڑی چیز پائی جائے تو اسے (یعنی لقطہ کو) اٹھا لینا مستحب ہے بشرطیکہ اپنے نفس پر یہ اعتماد ہو کہ اس چیز کی تشہیر کرا کر اسے اس کے مالک کے حوالے کر دیا جائے گا اگر اپنے نفس پر یہ اعماد نہ ہو تو پھر اسے وہیں چھوڑ دینا ہی بہتر ہے لیکن اگر یہ خوف ہو کہ اس چیز کو یوں ہی پڑا رہنے دیا گیا تو یہ ضائع ہو جائے گی تو اس صورت میں اسے اٹھا لینا واجب ہوگا اگر دیکھنے والا اسے نہ اٹھائے گا اور وہ چیز ضائع ہو جائے گی تو وہ گنہگار ہوگا یہ لقطہ کا اصولی حکم ہے اب اس کے چند تفصیلی مسائل ملاحظہ کیجئے۔
لقطہ اس شخص کے پاس بطور امانت رہتا ہے جس نے اسے اٹھایا ہے بشرطیکہ وہ اس پر کسی کو گواہ کر لے کہ میں اس چیز کو حفاظت سے رکھنے یا اس کے مالک کے پاس پہنچا دینے کے لئے اٹھاتا ہوں اس صورت میں وہ لقطہ اٹھانے والے کے پاس سے ضائع ہو جائے تو اس پر تاوان واجب نہیں ہوگا اور اگر اٹھانے والے نے کسی کو اس پر گواہ بنایا اور وہ لقطہ اس کے پاس سے تلف ہو گیا تو اس پر تاوان واجب ہوگا بشرطیکہ لقطہ کا مالک یہ انکار کر دے کہ اس نے وہ چیز مجھے دینے کے لئے نہیں اٹھائی تھی۔
لقطہ جہاں سے اٹھایا جائے اس جگہ بھی اور ان مقامات پر بھی کہ جہاں لوگوں کا اجتماع رہتا ہے اس کی تشہیر کی جائے (یعنی اٹھانے والا کہتا ہے) کہ یہ چیز کس کی ہے؟ اور یہ تشہیر اس وقت تک کی جانی چاہئے کہ جب تک کہ اٹھانے والے کو یقین نہ ہو جائے کہ اب اتنے دنوں کے بعد اس کا مالک مطالبہ نہیں کرے گا لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک مدت تشہیر ایک سال ہے یعنی ان کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ لقطہ کی ایک سال تک تشہیر کی جانی چاہئے اور جو چیز زیادہ دن تک نہ ٹہر سکتی ہو اس کی تشہیر صرف اسی وقت تک کی جائے کہ اس کے خراب ہو جانے کا خوف نہ ہو۔
مدت تشہیرکے دوران اگر اس کا مالک آجائے تو اسے وہ چیز دے دی جائے ورنہ مدت تشہیر گزر جانے کے بعد اس چیز کو خیرات کر دیا جائے اب اگر خیرات کرنے کے بعد مالک آئے تو چاہے وہ اس خیرات کو برقرار رکھے اور اس کے ثواب کا حق دار ہو جائے اور چاہے اس اٹھانے والے سے تاوان لے یا اس شخص سے اپنی چیز واپس لے لے جس کو وہ بطور خیرات دی گئی ہے اور اگر وہ چیز اس کے پاس موجود نہ ہو تو اس سے تاوان لے لے جیسا کہ بطور لقطہ ملے ہوئے جانور کا حکم ہے۔
جانوروں میں بھی لقطہ ہونا جائز ہے یعنی اگر کسی کو کوئی گم شدہ جانور کسی شخص کو مل جائے تو اسے پکڑ لینا اور اس کی تشہیر کر کے اس کے مالک تک پہنچا دینا جائز ہے۔ اس بارے میں یہ مسئلہ ہے کہ اگر مدت تشہیر کے دوران اس جانور کے کھلانے پلانے پر کچھ خرچ ہوا ہے تو وہ احسان شمار ہوگا یعنی اس کا مطالبہ مالک سے نہیں کیا جائے گا بشرطیکہ وہ خرچ حاکم کی اجازت کے بغیر کیا گیا ہو۔ اور اگر جانور پکڑنے والے نے اس شرط کے ساتھ کہ اس جانور پر جو کچھ خرچ ہوگا جانور کے مالک سے لے لوں گا۔ حاکم کی اجازت سے اس جانور پر کچھ خرچ کیا تو اس کی ادائیگی مالک پر بطور قرض واجب ہو گی کہ جب وہ مالک اپنا جانورحاصل کرے تو اس کے جانور کو پکڑنے والے نے اس پر کچھ خرچ کیا ہے وہ سب ادا کر دے اس صورت میں لقطہ رکھنے والے کو یہ حق حاصل ہوگا کہ جب تک مالک اسے سارے اخراجات ادا نہ کرے وہ لقطہ کو اپنے پاس روکے رکھے۔
اس سلسلہ میں حاکم وقاضی کے لئے بھی یہ ہدایت ہے کہ بطور لقطہ ملنے والی چیز اگر ایسی ہے جس سے منفعت حاصل ہو سکتی ہو جیسے بھاگا ہوا غلام تو اس سے محنت ومزدوری کرائی جائے اور وہ جو کچھ کمائے اسی سے اس کے اخراجات پورے کئے جائیں اور اگر لقطہ کسی ایسی چیز کی صورت میں ہو جس سے کوئی منفعت حاصل نہیں ہو سکتی اور اس کو رکھنے میں کچھ خرچ کرنا پڑتا ہو جیسے جانور تو قاضی اس کے اخراجات پپورے کرنے کی اجازت دیدے اور یہ طے کر دے کہ اس پر جو خرچ ہوگا وہ مالک سے وصول کر لیا جائے گا ۔ بشرطیکہ اس میں مالک کے لئے بہتری ہو اور اگر قاضی یہ دیکھے کہ اس صورت میں مالک کو بجائے فائدہ کے نقصان ہوگا تو پھر اس چیز کو فروخت کرا دے اور اس کی قیمت کو رکھ چھوڑے تاکہ جب مالک آ جائے تو اسے دیدی جائے۔
اگر کسی شخص کے پاس کوئی لقطہ ہو اور وہ اس کی علامات بتا کر اپنی ملکیت کا دعوی کرے تو وہ لقطہ اسے دیدینا جائز ہے اس صورت میں گواہوں کا ہونا ضروری نہیں ہوگا ہاں اگر وہ علامات نہ بتا سکے تو پھر گواہوں کے بغیر وہ لقطہ اسے نہیں دینا چاہئے اگر لقطہ پانے والا کوئی مفلس ہے تو مدت تشہیر ختم ہو جانے کے بعد وہ خود اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اور اگر وہ خود مالدار ہے تو پھر اسے خیرات کر دے۔ اس بارہ میں اسے یہ اجازت ہو گی کہ اگر وہ چاہے تو اپنے اصول یعنی ماں باپ اور اپنے فروع یعنی بیٹا بیٹی اور بیوی کو بطور خیرات وہ لقطہ دیدے بشرطیکہ یہ لوگ مفلس وضرورت مند ہوں ۔ بھاگے ہوئے غلام کو پکڑ لینا اس شخص کے لئے مستحب ہے جو اس کو پکڑنے کی طاقت رکھتا ہو اسی طرح اس غلام کو بھی اپنے پاس رکھ لینا مستحب ہے جو راستہ بھول جانے کی وجہ سے بھٹک رہا ہو۔ اگر کسی کا کوئی غلام بھاگ جائے اور تین دن کی مسافت یا اس سے زیادہ دور سے کوئی شخص اسے پکڑ کر اس کے مالک کے پاس پہنچا دے تو وہ لانے والا اس بات کا مستحق ہوگا کہ غلام کے مالک سے اپنی مزدوری کے طور پر چالیس درہم وصول کرے گا اگرچہ وہ غلام چالیس درہم سے کم ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن شرط یہ ہے کہ لانے والے نے اس بات پر کسی کو گواہ بنا لیا ہو کہ میں اس غلام کو اس لئے پکڑتا ہوں تاکہ اسے اس کے مالک کے پاس پہنچا دوں ۔ اور اگر کوئی شخص بھاگے ہوئے غلام کو اس کے مالک کے پاس تین دن کی مسافت سے کم دوری سے لایا ہو تو اسی حساب سے اجرت دی جائے گی۔ مثلا ڈیڑھ دن کی مسافت کی دوری سے لایا ہے تو اسے بیس درہم دئیے جائیں گے اور اگر وہ غلام اس شخص سے بھی چھوٹ کر بھاگ گیا جو اسے پکڑ کر لایا تھا تو اس پر کوئی تاوان واجب نہیں ہوگا۔ بشرطیکہ اس نے کسی کو گواہ بنا لیا ہو اور اگر گواہ نہ بنایا ہو گا تو اس صورت میں نہ صرف یہ کہ اسے کوئی اجرت نہیں ملے گی بلکہ اس پر تاوان بھی واجب نہیں ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں