کمترچیز کے تحفہ کا لینا دیناحقیر نہ سمجھو
راوی:
وعن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " تهادوا فإن الهدية تذهب وحر الصدر ولا تحقرن جارة لجارتها ولا شق فرسن شاة " . رواه الترمذي
(2/185)
3029 – [ 14 ] ( لم تتم دراسته )
وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ثلاث لا ترد الوسائد والدهن واللبن " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب قيل : أراد بالدهن الطيب
اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپس میں تحفہ دیا لیا کرو کیونہ تحفہ سینے کی کدورت کو دور کرتا ہے اور یاد رکھو کوئی ہمسایہ اپنے دوسرے ہمسایہ کے واسطے کسی کمتر چیز کے تحفہ کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ وہ بکری کے کھر کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو ( ترمذی)
تشریح :
مطلب یہ ہے کہ کوئی اپنے ہمسایہ کو کسی کمتر اور تھوڑی سی چیز کے بطور تحفہ بھیجنے کو اس ہمسایہ کے حق میں حقیر نہ سمجھے بلکہ جو بھیجنا چاہے اسے بھیجدے خوہ وہ کتنی ہی کمتر اور تھوڑی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح جس ہمسایہ کو تحفہ بھیجا گیا ہو اس کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اپنے ہمسایہ کے کسی تحفہ کو حقیر سمجھے بلکہ اس کے پاس جو بھی تحفہ آئے اسے رغبت وبشاشت کے ساتھ قبول کرلے اگرچہ وہ کتنی ہی تھوڑی اور کیسی ہی خراب کیوں نہ ہو۔
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین چیزیں ایسی ہیں جنہیں قبول کرنے سے انکار نہ کرنا چاہئے (١) تکیہ (٢) تیل (٣) دودھ۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ نیز کہا جاتا ہے کہ تیل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خوشبو تھی۔
تشریح :
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے مہمان کو تواضع کے طور پر تکیہ دے یا تیل دے اور یا پینے کے لئے دودھ دے تو اس مہمان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دے بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ دھن یعنی تیل سے مراد خوشبو ہے جیسا کہ ترجمہ میں ذکر کیا گیا لیکن زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ دھن سے مراد تیل ہی ہے کیونکہ اس زمانہ میں بھی اہل عرب اپنے سروں میں عمومیت کے ساتھ تیل لگایا کرتے تھے۔