مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ عطایا کا بیان ۔ حدیث 227

عمری کیا ہے

راوی:

ابتداء باب کے حاشیہ میں عمری کے معنی بیان کئے جا چکے ہیں چنانچہ اس موقع پر بھی جان لیجیے کہ عمری کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلا کوئی شخص کسی سے یہ کہے کہ میں نے اپنا یہ مکان تمہیں تمہاری زندگی تک کے لئے دیا یہ جائز ہے اس صورت میں جب تک وہ شخص جس کو مکان دیا گیا ہے زندہ ہے اس سے وہ مکان واپس نہیں لیا جا سکتا۔ لیکن اس کے مرنے کے بعد وہ مکان واپس لیا جا سکتا ہے یا نہیں اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں جس کی تفصیل یہ ہے کہ عمری کی تین صورتیں ہوتی ہیں ۔
اول یہ کہ کوئی شخص مثلا اپنا مکان کسی کو دے اور یہ کہے کہ میں نے اپنا یہ مکان تمہیں دیدیا جب تک تم زندہ رہو گے یہ تمہاری ملکیت میں رہے گا تمہارے مرنے کے بعد تمہارے وارثوں اور اولاد کا ہو جائے گا اس صورت کے بارے میں تمام علماء کا بالاتفاق یہ مسلک ہے کہ یہ ہبہ ہے اس صورت میں مکان مالک کی ملکیت سے نکل جاتا ہے اور جس شخص کو دیا گیا ہے اس کی ملکیت میں آ جاتا ہے اس شخص کے مرنے کے بعد اس کے ورثاء اس مکان کے مالک ہو جاتے ہیں اگر ورثاء نہ ہوں تو بیت المال میں داخل ہو جاتا ہے۔
عمری کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ دینے والا بلا کسی قید وشرط کے یعنی مطلقا یہ کہے کہ یہ مکان تمہاری زندگی تک تمہارا ہے اس صورت کے بارے میں علماء کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ اس کا بھی حکم وہی ہے جو پہلی صورت کا حکم ہے چنانچہ حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے اور بعد اس کے وارثوں کا حق نہیں ہوتا بلکہ اصل مالک یعنی جس نے اس شخص کو دیا تھا کی ملکیت میں واپس آ جاتا ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ دینے والا یوں کہے کہ یہ مکان تمہاری زندگی تک تمہارا ہے تمہارے مرنے کے بعد میری اور میرے وارثوں کی ملکیت میں آ جائے گا اس صورت کے بارے میں بھی زیادہ صحیح یہی بات ہے کہ اس کا حکم بھی وہی ہے جو پہلی صورت ہے حنفیہ کے نزدیک یہ شرط کہ تمہارے مرنے کے بعد میری اور میرے وارثوں کی ملکیت میں آ جائے گا فاسد ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ کسی فاسد شرط کی وجہ سے فاسد نہیں ہوتا۔
حضرت امام شافعی کا بھی زیادہ صحیح قول یہی ہے لیکن حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ عمری کی یہ صورت ایک فاسد شرط کی وجہ سے فاسد ہے۔ عمری کے بارے میں حضرت امام مالک کا یہ قول ہے کہ اس کی تمام صورتوں میں بنیادی مقصد دی جانیوالی چیز کی منفعت کا مالک کرنا ہوتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں