آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صحابہ کو افتادہ زمین کا جاگیری عطیہ
راوی:
وعن أسماء بنت أبي بكر : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم أقطع للزبير نخيلا . رواه أبو داود
(2/178)
2998 – [ 8 ] ( لم تتم دراسته )
وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه و سلم أقطع للزبير حضر فرسه فأجرى فرسه حتى قام ثم رمى بسوطه فقال : " أعطوه من حيث بلغ السوط " . رواه أبو داود
(2/178)
2999 – [ 9 ] ( لم تتم دراسته )
وعن علقمة بن وائل عن أبيه : أن النبي صلى الله عليه و سلم أقطعه أرضا بحضرموت قال : فأرسل معي معاوية قال : " أعطها إياه " . رواه الترمذي والدارمي
(2/178)
3000 – [ 10 ] ( لم تتم دراسته )
وعن أبيض بن حمال المأربي : أنه وفد إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فاستقطعه الملح الذي بمأرب فأقطعه إياه فلما ولى قال رجل : يا رسول الله إنما أقطعت له الماء العد قال : فرجعه منه قال : وسأله ماذا يحمى من الأراك ؟ قال : " ما لم تنله أخفاف الإبل " . رواه الترمذي وابن ماجه والدارمي
اور حضرت ابوبکر صدیق کی صاحبزادی حضرت اسماء کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کے لئے کھجوروں کے درخت جاگیر کر دئیے تھے ( ابوداؤد)
تشریح :
اس بارے میں ایک احتمال یہ ہے کہ کھجور کے جو درخت حضرت زبیر کو بطور جاگیر عطاء کئے گئے تھے وہ دراصل خمس میں سے تھے جو ان کا حق تھا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ درخت اس موات افتادہ وغیرآباد) زمین میں تھے جسے حضرت زبیر نے آباد کیا ہوگا۔
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کو ان کے گھوڑے کی دوڑ کے بقدر زمین بطور جاگیر (یعنی ایک دوڑ میں گھوڑا جہاں تک پہنچ کر ٹھہر جائے وہاں تک کی زمین عطا کر دی چنانچہ اس مقصد کے لئے حضرت زبیر نے اپنا گھوڑا دوڑایا اور وہ گھوڑا ایک جگہ پہنچ کر ٹھہر گیا پھر حضرت زبیر نے اپنا کوڑا پھینکا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زبیر کا کوڑا جہاں جا کر گرا وہاں تک کی زمین زبیر کو دیدی جائے ( ابوداؤد)
اور حضرت علقمہ بن وائل اپنے والد حضرت وائل بن حجر) سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان وائل بن حجر کو حضرت موت میں کچھ زمین بطور جاگیر عطاء فرمائی چنانچہ حضرت وائل کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ کو میرے ہمراہ بھیجا تاکہ وہ اس زمین کی پیمائش کر دیں اور معاویہ نے فرمایا کہ وہ زمین ناپ کر وائل کو دیدو ( ترمذی والدارمی)
تشریح :
موجودہ جغرافیائی نقشے کے مطابق جبل السراۃ کا ایک سلسلہ یمن سے گزر کر جزیرۃ العرب کے جنوب مغربی گوشے سے مشرق کی طرف مڑ گیا ہے پھر جنوبی ساحل کے قریب قریب دور تک چلا گیا ہے جبل السراۃ کا یہی سلسلہ جن علاقوں پر مشتمل ہے انہیں حضرموت کہا جاتا ہے یوں تو حضرموت کا پورا علاقہ عموماً بنجر اور غیرشاداب پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے جو نہ زیادہ بلند ہیں اور بارش کم ہونے کی وجہ سے ناقابل زراعت ہیں لیکن ان سلسلوں میں کچھ وادیاں ہیں جو نسبۃ شاداب ہیں ان میں سے ایک وادی کا نام وادی حضرموت ہے ۔
حضرت وائل بن حجر اسی علاقے کے قدیم شاہی خاندان کے ایک فرد تھے ان کے والد وہاں کے بادشاہ تھے۔ یہ جب پیغمبر اسلام کی دعوت سن کر اپنے ملک کے ایک وفد کے ساتھ بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے کے لئے حضرموت سے روانہ ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ان کی آمد سے پیشتر صحابہ کو مطلع کر دیا تھا اور (وھو بقیۃ ابناء الملوک) (اور وہ شاہی خاندان کے چشم وچراغ ہیں ) کے ذریعے انکا تعارف کرایا تھا پھر جب وہ مدینہ پہنچے اور بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حیثیت کے مطابق ان کا استقبال کیا انہیں اپنے قریب بٹھایا اور ان کے لئے اپنی مبارک چادر بچھا دی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حضرموت کے علاقہ کا حاکم مقرر فرمایا اور وہاں کی کچھ زمین انہیں بطور جاگیر عطاء فرمائی۔
اور حضرت ابیض ابن حمال ماربی کے بارے میں منقول ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ درخواست پیش کی کہ ما رب میں نمک کی جو کان ہے وہ ان کے لئے جاگیر کر دی جائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نمک کی وہ کان بطور جاگیر عطا فرما دی جب ابیض واپس ہوئے تو ایک شخص (یعنی اقرع بن حابس تمیمی) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ابیض کو تیار پانی یعنی کان میں بالکل تیار نمک دیدیا ہے راوی کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت اقرع سے یہ معلوم ہوا کہ ابیض کو ایک ایسی کان دیدی گئی ہے جس میں نمک بالکل تیار ہے تو ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کان ابیض سے واپس لے لی۔ راوی سمجھتے ہیں کہ اس شخص یعنی حضرت اقرع نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی دریافت کیا کہ پیلو کے درختوں کی کون سی زمین گھیری جائے؟ یعنی کون سے افتادہ وغیرافتادہ زمین کو آباد کر کے اپنی ملکیت بنایا جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ زمین جہاں اونٹوں کے پاؤں نہ پہنچیں ( ترمذی ابن ماجہ دارمی)
تشریح :
ما رب یمن کے ایک شہر کا نام ہے جو صنعاء سے ٦٠ میل مشرق میں تقریبا چار ہزار فٹ بلند سطح زمین پر واقع ہے یمن میں پہلی صدی عیسوی تک سبا نامی نسل کے اقتدار کے زمانے میں ما رب یمن کا دار السلطنت ہونیکی وجہ سے نہ صرف ایک بڑا شہر تھا بلکہ ایک عظیم تجارتی مرکز بھی تھا حضرت ابیض اسی شہر کے رہنے والے تھے اسی لئے انہیں ماربی کہا جاتا ہے۔
الماء العد یعنی تیار پانی کا مطلب یہ ہے کہ بالکل تیار ہمیشہ رہنے والا کہ اس کا مادہ منقطع نہ ہو اس سے کان میں نمک کی بالکل تیار حالت کی حالت میں ہے جس سے محنت ومشقت اور سخت جدوجہد کے بعد نمک نکلے گا۔ مگر جب حضرت اقرع کی توجہ دلانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ وہ کان ابتدائی حالت میں نہیں ہے بلکہ اس میں نمک تیار ہو چکا ہے جو بغیر کسی محنت ومشقت کے تیار پانی اور گھاس کی طرح حاصل کیا جا سکتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کان واپس لے لی کیونکہ اس صورت میں اس کان اور اس میں تیار شدہ نمک پر سب لوگوں کا حق تھا اسے کسی فرد واحد کی ملکیت بنا دینا مناسب نہیں تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں کے حقوق کی رعایت کے پیش نظر اس کان کو واپس لے لینا ہی بہتر سمجھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ امام یعنی حکومت وقت کی طرف سے کوئی کان کسی شخص کو بطورجاگیر عطاء ہو سکتی ہے بشرطیکہ وہ کان زیر زمین پوشیدہ ہو اور اس سے محنت ومشقت اور جدوجہد کے بغیر کچھ حاصل نہ ہو سکتا ہو۔ ہاں جو کانیں برآمد ہو چکی ہوں اور ان سے نکلنے والا مال کسی محنت ومشقت اور جدوجہد کے بغیر حاصل ہو سکتا ہو تو انہیں کسی فرد واحد کی جاگیر بنا دینا جائز نہیں ہے بلکہ گھاس اور پانی کی طرح ان کی منفعت میں بھی تمام لوگ شریک ہوں گے اور ان پر سب کا استحقاق ہوگا۔ اس حدیث سے یہ نکتہ بھی معلوم ہوا کہ اگر حاکم کسی معاملے میں کوئی حکم وفیصلہ صادر کرے اور پھر اسپر یہ ظاہر ہو کہ یہ حکم وفیصلہ حقیقت کے منافی ہے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اس فیصلے وحکم کو منسوخ کر دے اور اس سے رجوع کر لے۔
وہ زمین جہاں اونٹوں کے پاؤں نہ پہنچیں سے مراد وہ زمین ہے جو چراگاہ اور عمارات سے الگ ہو اس سے معلوم ہوا کہ اس موات افتادہ زمین کا احیاء یعنی اسے آباد کرنا جائز نہیں ہے جو عمارات کے قریب ہو کیونکہ وہ جانوروں کو چرانے اور اہل بستی کی دیگر ضرورت کے لئے استعمال ہوتی ہے۔