غیر آباد زمین کو آباد کرنے اور پانی پلانے کے حق کا بیان
راوی:
نہایہ میں لکھا ہے کہ موات اس زمین کو کہتے ہیں جس میں نہ کوئی کھیتی ہو نہ مکان ہو اور نہ اس کا کوئی مالک ہو اور ہدایہ میں لکھا ہے کہ موات اس زمین کو کہتے ہیں جو پانی کے منقطع ہونے یا اکثر زیرآب رہنے کی وجہ سے ناقابل انتفاع ہو یا اس میں ایسی کوئی چیز ہو جو زراعت سے مانع ہو لہذا ایسی زمین جو عادی یعنی قدیم ہو کہ اس کا کوئی مالک نہ ہو یا اسلامی سلطنت کی مملوک ہو اور اس کے مالک کا پتہ نامعلوم ہو اور وہ زمین بستی سے اس قدر دوری پر ہو کہ اگر کوئی شخص بستی کے کنارے پر کھڑا ہو کر آواز بلند کرے تو اس کی آواز اس زمین تک نہ پہنچے تو وہ زمین موات ہے۔
احیا موات سے مراد ہے اس زمین کو آباد کرنا ہے اور اس زمین کو آباد کرنے کی صورت یہ ہے کہ یا تو اس زمین میں مکان بنایا جائے یا اس میں درخت لگایا جائے یا اس میں زراعت کی جائے یا اسے سیراب کیا جائے اور یا اس میں ہل چلا دیا جائے۔
اس قسم کی زمین یعنی موات کا شرعی حکم یہ ہے کہ جو شخص اس زمین کو آباد کرتا ہے وہ اس کا مالک ہو جاتا ہے لیکن اس بارے میں علماء کا تھوڑا سا اختلاف ہے اور وہ یہ کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ اس زمین کو آباد کرنے کے لئے امام (یعنی حکومت وقت) سے اجازت لینا شرط ہے جب کہ حضرت امام شافعی اور صاحبین یعنی حنفیہ کے حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک اجازت شرط نہیں ہے۔
شرب کے لغوی معنی ہیں پینے کا پانی پانی کا حصہ گھاٹ اور پینے کا وقت اصطلاع شریعت میں اس لفظ کا مفہوم ہے پانی سے فائدہ اٹھانے کا وہ حق جو پینے برتنے اپنی کھیتی اور باغ کو سیراب کرنے اور جانوروں کو پلانے کے لے ہر انسان کو حاصل ہوتا ہے چنانچہ پانی جب تک اپنے معدن ( یعنی دریا اور تالاب وغیرہ ) میں ہے کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتا اس سے بلا تخصیص ہر انسان کو فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے جس سے منع کرنا اور روکنا کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔
لیکن اس سلسلے میں دریا نہروں نالوں کے پانی اور اس پانی میں کہ جو برتنوں میں بھر لیا گیا ہو فرق ہے ۔ جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے ۔ اس موقع پر تو صرف اس قدر جان لیجئے کہ حنفی مسلک کے مطابق دریا کے پانی پر تمام انسانوں کا یکساں حق ہے چاہے کوئی اس کا پانی پینے پلانے کے استعمال میں لائے چاہے کوئی اس سے اپنی زمین سیراب کرے اور چاہے کوئی نہروں اور نالیوں کے ذریعے اس کا پانی اپنے کھیت وباغات میں لے جائے کسی کو بھی اور کسی صورت میں بھی دریا کے پانی کے استعمال سے نہیں روکا جا سکتا اور نہ کسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی کو روکے یا منع کرے چنانچہ دریا کے پانی سے فائدہ اٹھانا چاند سورج اور ہوا سے فائدہ اٹھانے کی طرح ہے کہ اللہ نے ان نعمتوں کو بلا تخصیص کائنات کے ہر فرد کے لئے عام کیا ہے ان کا نفع و فائدہ کسی خاص شخص یا کسی خاص طبقے کے لے مخصوص نہیں ہے بلکہ ان سے فائدہ اٹھانے میں سب یکساں شریک ہیں اسی طرح کنویں اور نہروں کے پانی پر بھی سب کا حق ہے لیکن اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ کسی کنویں یا کسی نہر کے پانی سے موات کا احیاء کرے یعنی افتادہ زمین میں زراعت کرے تو اس صورت میں ان لوگوں کو کہ جن کے علاقے میں وہ کنواں اور نہر ہے منع کر دینے کا حق حاصل ہے خواہ اس شخص کے افتادہ زمین میں پانی لے جانے سے اس کنویں اور نہر کے پانی میں کمی اور نقصان واقع ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو کیونکہ ان کے علاقے میں اس کنویں یا اس نہ رکے ہونے کی وجہ سے ان کے پانی پر انہیں بہر حال ایک خاص حق حاصل ہے اور جو پانی کسی برتن یا ٹینکی وغیرہ میں بھر لیا جاتا ہے وہ اس برتن وٹینکی والے کی ملکیت ہو جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس پانی پر ہر شخص کا حق ہوتا ہے کہ جو چاہے مار لے لیکن جب اسے کوئی شکاری پکڑ لیتا ہے تو اس کے قبضہ میں اتر آتے ہی وہ اس شکاری کی ملکیت ہو جاتا ہے اور اس پر بقیہ سب کا حق ساقط ہو جاتا ہے ۔ اور کوئی کنواں یا نہر اور چشمہ کسی ایسی زمین میں ہو جو کسی خاص شخص کی ملیکت ہو تو اس شخص کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اگر وہ چاہے تو اپنی حدود ملکیت میں پانی کے طلب گار کسی غیر شخص کے داخلے پر پابندی عائد کر دے بشرطیکہ وہ پانی کا طلبگار شخص وہاں کسی ایسے قریبی مقام سے پانی حاصل کر سکتا ہو جو کسی غیر کی ملکیت میں نہ ہو اور اگر وہاں کسی اور قریب جگہ سے پانی کا حصول اس کے لئے ممکن نہ ہو تو پھر اسی مالک سے کہا جائے گا کہ یا تو وہ خود اس نہر یا کنویں سے پانی لا کر دیدے یا اسے اجازت دیدے کہ وہ وہاں آ کر پانی لے سکے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ کنویں یا نہر کے کنارے کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔
اگر موات زمین میں کوئی کنواں کھدوایا گیا ہو تو اس زمین کو آباد کرنیوالے کو یہ حق نہیں پہنچے گا کہ وہ اس کنویں سے پانی لینے سے لوگوں کو منع کرے کیونکہ آباد کرنے کی وجہ سے جس طرح وہ زمین اس ملکیت میں آگئی ہے اس طرح اس کنویں کا پانی اس کی ملکیت نہیں آیا ہے اگر وہ کسی ایسے شخص کو منع کرے گا جو اس کنویں سے خود پانی پینا چاہتا ہے یا اپنے جانور کو پلانا چاہتا ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں خود اس کی یا اس کے جانور کی ہلاکت کا خدشہ ہے تو اسے اس بات کی اجازت ہوگی کہ وہ زبردستی اس کنویں سے پانی حاصل کرے چاہے اس مقصد کے لئے اس کو لڑنا ہی کیوں نہ پڑے اور اس لڑائی میں ہتھیار استعمال کرنے کی نوبت کیوں نہ آجائے۔ کنواں بے شک کسی کی ذاتی ملکیت ہو سکتا ہے مگر اس کنویں کا پانی کنویں والے کی ملکیت نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر شخص کے لئے مباح ہوتا ہے بخلاف اس پانی کے جو کسی نے اپنے برتن باسن میں بھر لیا ہو کہ وہ ذاتی ملکیت ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص پیاس کی شدت سے بے حال ہوا جا رہا ہو اور اس شخص سے وہ پانی مانگے جو اس نے اپنے برتن باسن میں بھر رکھا ہو اور وہ پانی دینے سے انکار کر دے تو اس پیاسے کو یہ حق ہوگا کہ لڑ جھگڑ کر اس سے پانی حاصل کر لے بشرطیکہ پانی نہ ملنے کی صورت میں جان چلی جانے کا خدشہ ہو اور وہ لڑائی میں کسی ہتھیار وغیرہ کا استعمال نہ کرے یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ اگر کوئی شخص بھوک کی وجہ سے مرا جا رہا ہو اور کسی کھانے والے سے کھانا مانگے اور وہ کھانا نہ دے تو اسے حق ہوتا ہے کہ اپنی جان بچانے کے لئے اس سے لڑ جھگڑ کر کھانا حاصل کرے مگر اس کو لڑائی میں ہتھیار وغیرہ استعمال کرنے کی قطعًا اجازت نہیں ہوتی۔
بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے کنویں سے پانی نہ لینے دے تو اس بارے میں زبردستی پانی حاصل کرنے کا ادنی درجہ یہ ہے کہ وہ کنویں والے سے بغیر ہتھیار استعمال کئے لڑے جھگڑے اور اس کی اجازت بھی اس لئے ہے کہ کسی کو پانی جیسی اللہ کی عام نعمت سے روکنا گناہ کا ارتکاب کرنا ہے اور یہ لڑ جھگڑ کر پانی حاصل کرنا اس کے حق میں تعزیر سزا کے قائم مقام ہوگا۔