دین کی تعلیم دینے کی اجرت لینے کا مسئلہ
راوی:
وعن عبادة بن الصامت قال : قلت : يا رسول الله رجل أهدى إلي قوسا ممن كنت أعلمه الكتاب والقرآن وليست بمال فأرمي عليها في سبيل الله قال : " إن كنت تحب أن تطوق طوقا من نار فاقبلها " . رواه أبو داود وابن ماجه
اور حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک شخص نے مجھے بطور تحفہ ایک کمان بھیجی ہے اور وہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جنہیں میں کتاب و قرآن کی تعلیم دیا کرتا تھا اور میں سمجھتا ہوں (اس کمان کو قبول کر لینے میں اس لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے) کہ کمان کوئی مال نہیں ہے۔ چنانچہ اس کمان کے ذریعے اللہ کے راستہ (یعنی جہاد) میں تیر اندازی کروں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہیں یہ پسند ہو کہ تمہارے گلے کو آگ کا طوق پہنایا جائے تو اسے قبول کر لو ( ابوداؤد ابن ماجہ)
تشریح :
کمان کوئی مال نہیں ہے" سے حضرت عبادہ کی یہ مراد تھی کہ کمان ایسی چیز نہیں ہے جسے مال یا اجرت شمار کیا جائے بلکہ یہ تو لڑائی کا ایک سامان ہے جسے میں اللہ کی راہ میں استعمال کروں گا بایں طور کہ جہاد میں اس کے ذریعے تیر اندازی کروں گا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں متنبہ فرمایا کہ یہ کمان اگرچہ تمہیں کلام اللہ کی تعلیم کی اجرت کے طو پر نہیں ملی ہے اور نہ یہ کوئی ایسی چیز ہے جسے اجرت شمار کیا جا سکے لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ تمہارے اس اخلاص کو ختم کردیگی جو تمہاری خدمت تعلیم کا محور تھا جس سے سرشار ہو کر تم نے ان لوگوں کو قرآن ودین کی تعلیم دی تھی لہذا تمہارے لئے مناسب یہی ہے کہ تم اسے قبول نہ کرو جو علماء قرآن ودین کی علیم دینے کی اجرت لینے کو حرام کہتے ہیں وہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے استدلال کرتے ہیں۔