سرکار دو عالم نے اجرت پر بکریا چرائی ہیں
راوی:
وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " ما بعث الله نبيا إلا رعى الغنم " . فقال أصحابه : وأنت ؟ فقال : " نعم كنت أرعى على قراريط لأهل مكة " . رواه البخاري
اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی نبی مبعوث نہیں کیا ہے جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بکریاں چرائی ہیں فرمایا ہاں میں چند قیراط کی اجرت پر اہل مکہ کی بکریاں چراتا تھا ( بخاری)
تشریح :
منصب نبوت کے فریضہ کی ادائیگی جن اوصاف وخصوصیات کی حامل ہوتی ہے یا یوں کہئے کہ نبی کو اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے معاشرہ اور سماج سے جو قریبی ربط وتعلق رکھنا پڑتا تھا اس کے لئے چونکہ یہ ضروری تھا کہ دعوت وتبلیغ اور اصلاح اور رہنمائی کے کسی بھی موڑ پر پورے معاشرے کے افراد اور نبی کے درمیان اجنبیت اور غیریت کی دیوار حائل نہ رہے اس لئے قدرت کی طرف سے ابتداء میں نبی کو ایک ایسے تربیتی اور آزمائشی دور سے گزارا جاتا تھا جس کے بعض مرحلے بظاہر تو بہت نچلی سطح کے معلوم ہوتے تھے لیکن نتائج واثرات کے اعتبار سے وہی مرحلے بہت ہی دور رس اور کار آمد ثابت ہوتے تھے۔ ایسا ہی ایک مرحلہ بکریوں کا چرانا بھی ہے جو اگرچہ بہت معمولی درجہ کی چیز معلوم ہوتی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہی بکریوں کا چرانا محبت وشفقت محنت ومشقت باہمی ربط وتعلق اور عام خیر خواہی ونگہداشت کا ایک بہترین سبق ہے جو کسی رہبرومصلح کی حیات کا ایک بنیادی وصف ہے چنانچہ ہر نبی اسی لئے بکریاں چراتا تھا تاکہ اس تجربہ سے گزرنے کے بعد امت کی نگہبانی وشفقت اور معاشرے سے ربط وتعلق کا حقیقی جذبہ پوری زندگی میں سرایت کئے رہے اور قوم کی طرف سے پیش آنیوالی ہر سختی ومشقت پر صبر وتحمل کی قوت حاصل رہے نیز اس ذریعے سے وہ حقیقی خلوت وتنہائی بھی حاصل ہو جاتی تھی جو نبی کی ابتدائی زندگی کا ایک مطلوب ہوتی تھی۔ مذکورہ بالا نکتہ زیادہ واضح ہو جاتا ہے اگر یہ تجزیہ پیش نظر ہو کہ ایک رہبر اور ایک بادشاہ اپنی قوم یا اپنی رعایا کے ساتھ وہی نسبت وتعلق رکھتا ہے جو ایک چرواہا اپنی بکریوں کے ساتھ رکھتا ہے۔