اجرت یا لگان پر زمین دینے کا ذکر
راوی:
وعن حنظلة بن قيس عن رافع بن خديج قال : أخبرني عماي أنهم كانوا يكرون الأرض على عهد النبي صلى الله عليه و سلم بما ينبت على الأربعاء أو شيء يستثنيه صاحب الأرض فنهانا النبي صلى الله عليه و سلم عن ذلك فقلت لرافع : فكيف هي بالدراهم والدنانير ؟ فقال : ليس بها بأس وكأن الذي نهي عن ذلك ما لو نظر فيه ذوو الفهم بالحلال والحرام لم يجيزوه لما فيه من المخاطرة
اور حضرت حنظلہ ابن قیس تابعی حضرت رافع بن خدیج صحابی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی رافع نے فرمایا کہ مجھے میرے دو چچاؤں نے بتایا کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مانے میں صحابہ کرام نالیوں پر ہونیوالی پیداوار کے عوض اپنی زمین اجرت پر دیا کرتے تھے (یعنی صحابہ اپنی زمین کو کسی دوسرے شخص کو اس شرط کے ساتھ اجرت پر دیدیا کرتے تھے کہ وہ شخص اپنی محنت اور اپنا تخم لگا کر اس میں کاشت کرے اور اس زمین کی پانی کی نالیوں کے کناروں پر جو کچھ پیدا ہوگا وہ اس زمین کی اجرت میں مالک کا حق ہوگا اور اس کے علاوہ باقی زمین کی پیداوار کاشت کرنے والے کا حق ہوگا یا اپنی زمین کو اس قطعہ کی پیداوار کے عوض اجرت پر دیتے تھے جسے مالک اپنے لئے علیحدہ کر لیتا تھا (یعنی زمین کو اجرت پر دینے کی دوسری صورت یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنی زمین جب کسی کو کاشت کے لئے دیتے تو اس کا کوئی قطعہ اپنے لئے متعین کر دیتے تھے اور یہ طے ہو جاتا تھا کہ کاشت کرنیوالا اپنی محنت اور اپنا تخم لگا کر پوری زمین پر کاشت کرے پھر اس متعین قطعہ کی جو کچھ پیداوار ہوگی وہ تو مالک لے لے گا اور باقی زمین کی پیداوار کاشت کرنیوالا لے گا چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرمایا کیونہ اس میں نقصان اور فریب میں مبتلا ہونے کا خوف رہتا تھا) حدیث کے راوی حضرت حنظلہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رافع سے پوچھا کہ درہم ودینار کے عوض مزارعت کا کیا حکم ہے (یعنی اپنی زمین کسی کو کاشت کرنے کے لئے دیدی جائے اور اس کے عوض بطور لگان روپے لئے جائیں تو کیا حکم ہے حضرت رافع نے فرمایا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور جس چیز سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے (یعنی مزارعت کی مذکورہ دونوں صورتیں ) وہ ایسی چیز ہے کہ اگر حرام وحلال کی سمجھ رکھنے والا شخص اس میں غور کرے تو نقصان پہنچنے کے خوف سے اسے پسند نہ کرے ( بخاری ومسلم)
تشریح :
اپنی زمین کو کاشت کے لئے دینے کی جو دو صورتیں ذکر کی گئی ہیں اور جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے وہ ان علماء کے نزدیک بھی محل نہی ہیں جو مزارعت کے جواز کے قائل ہیں۔
مزارعت کے سلسلے میں چونکہ مختلف احادیث منقول ہیں اس لئے جو علماء مزارعت کو جائز کہتے ہیں وہ بھی اپنے مسلک کو حدیث سے ثابت کرتے ہیں اور وہ علماء بھی حدیث ہی سے استدلال کرتے ہیں جن کے نزدیک مزارعت جائز نہیں ہے گویا دونوں طرف کے علماء کے لئے تاویل کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔
یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے اکثر علماء مزارعت کو جائز کہتے ہیں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اس کے عدم جواز کے قائل ہیں لیکن حنفیہ کے دو جلیل القدر ائمہ حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد چونکہ جواز ہی کے قائل ہیں پھر یہ کہ دفع ضرورت کی مصلحت بھی پیش نظر ہے اس لئے حنفی مسلک میں بھی فتوی اسی بات پر ہے کہ مزارعت جائز ہے۔