مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ شفعہ کا بیان۔ ۔ حدیث 190

ہرغیرمنقول جائیداد میں شفعہ ہے خواہ وہ تقسیم ہوسکتی ہے یا ناقبال تقسیم ہو

راوی:

عن عثمان بن عفان رضي الله عنه قال : إذا وقعت الحدود في الأرض فلا شفعة فيها . ولا شفعة في بئر ولا فحل النخل . رواه مالك

حضرت عثمان ابن عفان فرماتے ہیں کہ جب زمین میں حدیں قائم ہو جائیں یعنی مشترک زمین شرکاء میں باہم تقسیم ہو جائے اور ہر ایک کے حصے الگ الگ ہو جائیں تو شرکت کا شفعہ باقی نہیں رہتا اور نہ کنویں میں شفعہ کا حق حاصل ہوتا ہے اور نہ نر کھجور کے درخت میں ۔ (مالک)

تشریح :
کنواں ایک ایسی چیز ہے جو تقسیم کا احتمال نہیں رکھتا اور چونکہ شفعہ کا حق اسی زمین میں حاصل ہوتا ہے جو تقسیم کا احتمال رکھتی ہو اس لئے کنویں میں شفعہ نہیں ہوتا چنانچہ حضرت امام شافعی کا یہی مسلک ہے لیکن حنفیہ کے نزدیک شفعہ ہر زمین میں ثابت ہے خواہ وہ تقسیم کا احتمال رکھتی ہو جیسے مکانات اور باغات وغیرہ یا تقسیم کا احتمال نہ رکھے جیسے کنواں حمام اور چکی وغیرہ حنفیہ کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واضح ارشاد گرامی ہے کہ (الشفعۃ فی کل چیز یعنی) شفعہ ہر غیرمنقولہ چیز میں ہے۔
اور نہ نر کھجور کے درخت میں یعنی مثلا چند لوگوں کو کھجور کے کچھ درخت مشترک طور پر وراثت میں حاصل ہوئے جنہیں انہوں نے آپس میں تقسیم کر لیا لیکن ان میں ایک نر درخت بھی تھا جس کے پھول لے کر سب ہی لوگ اپنے اپنے کھجور کے درختوں پر ڈالتے تھے اب ان ہی میں کا ایک شخص اپنے حصے کے کھجور کے درختوں کے ساتھ اس نر درخت کے اپنے حقوق بھی فروخت کرے تو شرکاء کو اس فروخت میں شفعہ کا حق حاصل نہیں ہوگا کیونکہ نہ تو وہ کوئی زمین ہے اور نہ اس کو تقسیم کر لینا ممکن ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں