حق شفعہ صرف شریک کو حاصل ہوتا ہے یا ہمسایہ کو بھی
راوی:
وعنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " أيما رجل ظلم شبرا من الأرض كلفه الله عز و جل أن يحفره حتى يبلغ آخر سبع أرضين ثم يطوقه إلى يوم القيامة حتى يقضى بين الناس " . رواه أحمد
حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس غیرمنقول چیز میں حق شفعہ ثابت ہونے کا فیصلہ صادر فرمایا ہے (جو شراکت میں ہو) اور شرکاء کے درمیان تقسیم نہ کی گئی ہو لہذا جب حدود مقرر ہو جائیں یعنی مشترک ملکیت کی زمین یا مکان باہم تقسیم ہو جائے اور ہر ایک حصہ کے راستے الگ الگ کر دئیے جائیں تو پھر شفعہ باقی نہیں رہتا یعنی اس صورت میں چونکہ شرکت باقی نہیں رہتی اس لئے کسی کو بھی حق شفعہ حاصل نہیں ہوتا ( بخاری)
تشریح :
جب کسی زمین یا کسی مکان کے مشترک طور پر کئی مالک ہوں تو اس کے شرکاء کو ہر ایک کے حصے میں حق شفعہ اسی وقت تک حاصل رہتا ہے جب تک کہ اس زمین یا اس مکان کی باہم تقسیم نہ ہو اگر وہ زمین یا مکان شرکاء آپس میں تقسیم کر لیں اور سب کے حصے الگ ہو جائیں اور سب حصوں کے راستے بھی جدا جدا ہو جائیں تو اس صورت میں کسی کو بھی حق شفعہ حاصل نہیں رہتا ۔ اس طرح یہ حدیث اس بات کی دلیل ہوگی کہ حق شفعہ صرف شریک کو حاصل ہوتا ہے ہمسایہ کو حاصل نہیں ہوتا چنانچہ حضرت امام شافعی کا مسلک یہی ہے۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں ہمسایہ کو بھی حق شفعہ حاصل ہوتا ہے ان کی دلیل دوسری احادیث ہیں ان کے نزدیک اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ اس زمین یا مکان کی تقسیم کے بعد شرکت کا شفعہ باقی نہیں رہتا لہذا حدیث کا یہ مفہوم مراد لینے کی صورت میں ہمسائیگی کے شفعہ کی نفی لازم نہیں آتی۔