مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ شفعہ کا بیان۔ ۔ حدیث 179

شفعہ کا بیان

راوی:

وعن يعلى بن مرة قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " من أخذ أرضا بغير حقها كلف أن يحمل ترابها المحشر " . رواه أحمد

شفعہ" مشتق " ہے شفع" سے جس کے لغوی معنی ہیں ملانا اور جفت کرنا " شفعہ اصطلاح فقہ میں اس ہمسائیگی یا شراکت کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے کسی ہمسایہ یا کسی شریک کو اس کے دوسرے ہمسایہ یا دوسرے شریک کے فروخت ہونیوالی زمین یا فروخت ہونیوالے مکان کو خریدنے کا ایک مخصوص حق حاصل ہوتا ہے اور یہ حق صرف زمین یا مکان کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے جس شخص کو یہ حق حاصل ہوتا ہے اسے شفیع کہتے ہیں ۔ اس حق کا نام شفعہ اس لئے ہے کہ یہ خاص حق فروخت ہونیوالی زمین یا مکان کو شفیع کی زمین یا مکان سے ملاتا ہے۔
حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کے نزدیک حق شفعہ صرف شریک کو حاصل ہوتا ہے ہمسایہ کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا جبکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ حق شفعہ جس طرح شریک کے لئے ثابت ہے اسی طرح ہمسایہ کے لئے بھی ثابت ہے۔
ایک صحیح روایت کے مطابق حضرت امام احمد بھی اسی کے قائل ہیں ہمسایہ کے حق شفعہ کے ثبوت میں احادیث منقول ہیں جو بالکل صحیح درجے کی ہیں ان کی موجودگی میں ہمسایہ کو حق شفعہ دینے سے انکار ایک بے دلیل بات ہے۔
حنفی مسلک کے مطابق شفیع کے تین درجے ہیں اول خلیط فی النفس المبیع یعنی فروخت ہونیوالے مکان کی ملکیت میں کئی آدمی شریک ہوں خواہ وہ مکان ان سب شرکاء کو وراثت میں پہنچا ہو یا ان سب نے مشترک طور پر اسے خریدا ہو اور یا کسی نے ان سب کو مشترک طور پر ہبہ کیا ہو ۔
دوم خلیط فی حق المبیع یعنی اس فروخت ہونیوالے مکان یا زمین کی ملکیت میں شریک نہ ہو بلکہ اس زمین یا مکان کے حقوق میں شریک ہو جیسے حق مرور یعنی آمدورفت کا حق حق مسیل یعنی پانی کے نکاس کا حق اور حق شرب یعنی کھیت وغیرہ کو سیراب کرنے کے لئے پانی لے جانے کی نالی وغیرہ کا حق۔
سوم جار یعنی ہمسایہ جس کا مکان فروخت ہونیوالے مکان سے متصل ہو اور ان دونوں مکانوں کی دیواریں ملی ہوئی ہوں نیز دونوں کے دروازوں کا راستہ ایک ہو۔ ان تینوں کے علاوہ اور کوئی شفیع نہیں ہو سکتا لہذا سب سے پہلے تو حق شفعہ اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو اس فروخت ہونیوالے مکان یا زمین کی ملکیت میں شریک ہو اس کی موجودگی میں حق شفعہ نہ تو حقوق میں شریک کو حاصل ہوگا اور نہ ہمسایہ کو اگر یہ شریک حق شفعہ سے دست کشی اختیار کرے تو پھر حق شفعہ اس شخص کو پہنچے گا جو حقوق میں شریک ہو اور یہ بھی دست کشی اختیار کر لے تب حق شفعہ ہمسایہ کو حاصل ہوگا اور اگر یہ ہمسایہ بھی اپنے اس حق سے دست کش ہو جائے تو اس کے بعد کسی کو بھی حق شفعہ حاصل نہیں ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں