مستعار لی ہوئی چیز امانت کے حکم میں ہے
راوی:
وعن أمية بن صفوان عن أبيه : أن النبي صلى الله عليه و سلم استعار منه أدراعه يوم حنين فقال : أغصبا يا محمد ؟ قال : " بل عارية مضمونة " . رواه أبو داود
اور حضرت امیہ بن صفوان اپنے والد (صفوان) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کی جنگ کے دن ان (صفوان) سے کئی زرہیں عاریۃً لیں انہوں نے پوچھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ زرہیں غصب کے طریقہ پر لے رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ عاریۃً لے رہا ہوں جو کہ واپس کر دی جائیں گی (أبوداؤد)
تشریح :
غزوۃ حنین کے موقع پر جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ زرہیں صفوان سے مستعار لیں تو چونکہ صفوان اسلام کی دولت سے بہرہ ور نہیں تھے اسی لئے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زرہیں دیتے ہوئے جو سوال کیا وہ بظاہر حد ادب سے گرا ہوا معلوم ہوتا ہے لیکن بعد میں صفوان اسلام کی دولت سے مشرف ہو گئے تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔
حضرت شریح ، حضرت نخعی حضرت سفیان ثوری اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہم اللہ تعالیٰ کا مسلک یہ ہے کہ جو چیز مستعار لی جاتی ہے وہ مستعار لینے والے کے پاس بطور امانت ہوتی ہے کہ اگر وہ تلف وضائع ہو جائے تو اس کا بدلہ دینا واجب نہیں ہوتا ہاں اگر مستعار لینے والا اس چیز کو قصدًا ضائع کر دے تو پھر اس پر اس چیز کا بدل واجب ہوتا ہے لیکن حضرت ابن عباس حضرت ابوہریرہ حضرت امام شافعی اور امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ اگر وہ چیز ضائع وتلف ہو جائے تو مستعار لینے اولے پر اس کا بدل یعنی اس چیز کی قیمت ادا کرنا واجب ہوتا ہے اسی لئے ان حضرات کے نزدیک لفظ مضمونۃ جو واپس کر دی جائیں گی کے یہ معنی ہیں تلف ہو جانے کی صورت میں ان کا بدل ادا کیا جائے گا ۔