مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ غصب اور عاریت کا بیان ۔ حدیث 168

کسی دوسرے کا مال بغیر اجازت حلال نہیں ہے

راوی:

وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه " . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى

اور حضرت ابوحرہ رقاشی تابعی اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبردار کسی پر ظلم نہ کرنا جان لو کسی بھی دوسرے شخص کا مال لینا یا استعمال کرنا اس کی مرضی وخوشی کے بغیر حلال نہیں ہے ۔ اس روایت و بیہقی نے شعب الایمان میں اور دارقطنی نے مجتبی میں نقل کیا ہے۔
کسی کا مال لوٹنے والا اسلامی برادری کا فرد بننے کے قابل نہیں
اور حضرت عمران بن حصین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ جلب جائز ہے اور نہ جنب اور نہ شغار اسلام میں جائز ہے اور یاد رکھو جو شخص کسی کو لوٹتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے یعنی وہ ہماری جماعت میں سے نہیں ہے یا ہمارے طریقہ پر نہیں ہے حاصل یہ کہ ایسا شخص اس قابل نہیں کہ اسے اسلامی برادری کا ایک فرد سمجھ جائے (ترمذی)

تشریح :
جلب اور جنب یہ دو اصطلاحی الفاظ ہیں۔ ان کا تعلق سباق سے بھی ہے اور صدقہ سے بھی سباق ومسابقت یعنی گھوڑ دوڑ کے مقابلے کو کہتے ہیں مثلا دو آدمی اس شرط کے ساتھ آپس میں گھوڑے دوڑائیں کہ دیکھیں کون آگے نکل جاتا ہے لہذا سباق میں جلب یہ ہے کہ گھوڑا دوڑانے والا ایک آدمی اپنے گھوڑے کے پیچھے رکھے جس کا کام یہ ہو کہ وہ گھوڑے کو مارے آوازیں لگائے اور اس کو دوڑائے۔ اور جنب یہ ہے کہ گھوڑا اپنے ساتھ رکھے تاکہ سواری کا گھوڑا اگر تھک جائے تو اس دوسرے گھوڑے پر سوار ہو کر آگے نکل جائے۔
صدقہ میں جلب کی صورت یہ ہے کہ صدقات وزکوۃ وصول کرنیوالا جب صدقہ وزکوۃ وصول کرنے لوگوں کے پاس جائے تو آبادی سے باہر یا ان لوگوں سے دور کہیں بھی دوسری جگہ ٹھہر جائے اور کسی دوسرے آدمی کو ان لوگوں کے پاس یہ کہلا کر بھیجے کہ جن جن لوگوں پر زکوۃ واجب ہے وہ اپنی زکوۃ کا مال لے کر یہاں آ جائیں ۔ اسی طرح جنب یہ ہے کہ جس شخص پر زکوۃ واجب ہو وہ اپنا مال لے کر اپنے مکان سے کہیں دور چلاجائے اور زکوۃ وصول کرنے والے سے کہے کہ وہ اس کے پاس وہیں پہنچ کر زکوۃ وصول کرے اس کا بیان کتاب زکوۃ میں گزر چکا ہے چنانچہ یہاں بھی جلب و جنب سے منع فرمایا گیا ہے خواہ ان کا تعلق سباق سے یا ہو صدقہ سے۔
شغار یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بہن یا بیٹی کا نکاح کسی سے اس شرط کے ساتھ کرے کہ وہ اپنی بہن یا بیٹی کا نکاح اس کے ساتھ کر دے اور مہر کچھ نہ مقرر ہو بلکہ یہ شرط ہی مہر کے قائم مقام ہو ۔ حدیث میں اس قسم کے عقد کو اسلام کے طریقہ کے خلاف فرمایا گیا ہے چنانچہ اکثر علماء کے نزدیک ایسا عقد فاسد ہے لیکن حضرت امام ابوحنیفہ اور سفیان کے نزدیک یہ عقد نہ کرنا چاہئے۔

یہ حدیث شیئر کریں