حاجیوں کا سامان چرانے والے کا عبرتناک حشر
راوی:
وعن جابر قال : انكسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم يوم مات إبراهيم بن رسول الله صلى الله عليه و سلم فصلى بالناس ست ركعات بأربع سجدات فانصرف وقد آضت الشمس وقال : " ما من شيء توعدونه إلا قد رأيته في صلاتي هذه لقد جيء بالنار وذلك حين رأيتموني تأخرت مخافة أن يصيبني من لفحها وحتى رأيت فيها صاحب المحجن يجر قصبه في النار وكان يسرق الحاج بمحجته فإن فطن له قال : إنما تعلق بمحجتي وإن غفل عنه ذهب به وحتى رأيت فيها صاحبة الهرة التي ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش الأرض حتى ماتت جوعا ثم جيء بالجنة وذلك حين رأيتموني تقدمت حتى قمت في مقامي ولقد مددت يدي وأنا أريد أن أتناول من ثمرتها لتنظروا إليه ثم بدا لي أن لا أفعل " . رواه مسلم
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات کے دن سورج گرہن ہوا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو سورج گرہن کی نماز چھ رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھائی (یعنی دو رکعتیں پڑھیں اور ہر رکعت میں تین تین رکوع اور دو دو سجدے کئے) اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوۓ تو سورج پہلے کی طرح روشن ہو چکا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس چیز کا یعنی جنت اور دوزخ کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ میں آج اپنی اس نماز میں دیکھ لی ہے چنانچہ دوزخ کو میرے سامنے پیش کیا گیا اور یہی وہ وقت تھا جب نماز کے دوران تم نے مجھے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا تھا اور میں اس خوف سے پیچھے ہٹ گیا تھا کہ کہیں اس کی گرمی مجھ تک نہ پہنچ جائے میں نے اس وقت دوزخ میں خمدار لکڑی والے یعنی عمرو ابن لحی کو اس حال میں دیکھا کہ وہ اس میں اپنی انتڑیوں کو کھینچ رہا تھا یہ شخص اپنی خمدار لکڑی کے ذریعہ حاجیوں کا سامان چرایا کرتا تھا (جس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ وہ چلتے چلتے کسی کی کوئی چیز اپنی خمدار لکڑی میں الجھا لیتا تھا ) اگر کوئی اس کی یہ حرکت دیکھ لیتا تو وہ یہ کہہ دیتا کہ یہ چیز اپنے آپ میری لکڑی میں الجھ آئی ہے اور اگر کوئی نہ دیکھ پاتا تو وہ اس چیز کو غائب کر دیتا تھا ۔ نیز میں نے اس وقت دوزخ میں اس بلی والی عورت کو بھی دیکھا جس نے ایک بلی باندھ رکھی تھی جسے نہ وہ کچھ کھلاتی تھی اور نہ اسے چھوڑتی تھی کہ وہ حشرات الارض یعنی چوہے وغیرہ کھا لے یہاں تک کہ وہ بلی مارے بھوک کے مر گئی ۔ پھر میرے سامنے جنت کو پیش کیا گیا اور یہی وہ وقت تھا کہ جب تم نے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا تھا مگر پھر میں اپنی جگہ ٹھہر گیا اور میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تاکہ میں اس کے پھل توڑ لوں جسے تم بھی دیکھ لو لیکن میں نے سوچا کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تاکہ تمہارے ایمان بالغیب میں رخنہ نہ پڑے) (مسلم)
تشریح :
اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں اول یہ کہ جنت اور دوزخ عالم وجود میں آچکی ہیں اور موجود ہیں چنانچہ اہل سنت کا یہی مسلک ہے دوم یہ کہ عذاب اور ہلاکت کی جگہ سے ہٹ جانا سنت ہے سوم یہ کہ بعض لوگ اس وقت بھی دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہیں اور چہارم یہ کہ تھوڑا سا عمل نماز کو باطل نہیں کرتا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران جنت اور دوزخ کو دیکھ کر آگے بڑھے اور پیچھے ہٹے۔