شراکتی جماعت
راوی:
کسی تجارتی کاروبار یا معاملہ میں جو لوگ شریک وحصہ دار ہوتے ہیں۔ ان کی دو شکلیں ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ اس کاروباریا معاملہ کا ہر شریک مالک ومتصرف یا صرف متصرف ہوتا ہے اس طرح اس کاروبار یا معاملہ میں جملہ شرکاء کے باہمی مشورے پر عمل درآمد ہوتا ہے اسی شکل کی وہ چار قسمیں شرکت مفاوضہ شرکت عنان شرکت صنائع والتقبل اور شرکت وجوہ ہیں جن کا بیان باب کی ابتداء میں ہو چکا ہے۔
شرکاء کی دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ چند افراد کی ایک جماعت کسی تجارتی معاملہ میں شریک وحصہ دار ہو اور وہ تمام افراد کسی قانونی نظام اور مقررہ قواعد وضوابط کے پابند ماتحت ہوں اور ان میں سے ہر ایک شریک اپنے آپ کو مالکانہ حیثیت سے علیحدہ تصور کرے اس شکل کو موجودہ دور کے مشترک تجارتی اداروں اور کمپنیوں پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
اس بارے میں فقہی مسئلہ یہ ہے کہ
-1 ایسے کسی بھی مشترکہ تجارتی ادارے یا کمپنی کا نظم ونسق چلانے قانون پر عملدرآمد کرنے اور اجرائے کار کے لئے شرکاء ہی میں سے یا ان کے علاوہ لوگوں میں سے ایک شخص یا کئی آدمیوں کو جملہ شرکاء کے مشورہ سے منتخب کیا جائے۔
-2 کوئی بھی شریک بانصر اور تصرف کا حق نہیں رکھتا البتہ حق ملک ہر شریک کو حاصل ہوتا ہے۔
-3 جملہ شرکاء کی جماعت بہیئت مجموعی مالک ومتصرف ہو گی اور یہ ہئیت مجموعی خواہ باتفاق کل حاصل ہو یا بکثرت آراء۔
-4 کوئی بھی شریک اپنے مشترک تجارتی ادارہ کا اجیر وملازم بن سکتا ہے
-5 کوئی بھی شریک علیحدگی اختیار نہیں کر سکتا البتہ اپنا حصہ بذریعہ ہبہ یا بذریعہ بیع منتقل کر سکتا ہے
-6 جب تعداد شرکاء محدود ومکمل ہو جائے اور کوئی شریک اپنا حصہ بیچے تو دوسرے شرکاء مقدم سمجھے جائیں۔
-7 اگر کوئی حصہ میراث یا بیع وغیرہ کے ذریعہ تقسیم ہو جائے تو کارکنان کمپنی اس بات پر مجبور ہوں گے کہ اس حصہ کے جملہ ورثاء یا حقداروں سے لین دین کرنے میں جو کچھ زحمت ہو اسے برداشت کریں اس حصہ کے جملہ ورثاء یا شرکاء خواہ مل کرداد وستد (لین دین) کریں یا کسی ایک کو وکیل بنا دیں ایسے حصہ کے جملہ شرکاء کا مجموعہ ایک ذات کے برابر سمجھا جائے گا۔
شرکاء کمپنی کاروبار چلانے کے لئے جو قانون مرتب ونافذ کریں گے ان کی پابندی تمام شرکاء پر ضروری ہوگی البتہ خلاف شرع قانون بنانا معصیت و گناہ اور اس کی پابندی ناجائز ہے۔
-9 ایسے جملہ قانون جو کسی نظم ونسق کی حالت کے لئے وضع کئے جائیں صرف مباحات سے متعلق رہیں گے منصوصات شرعیہ میں اثر انداز نہیں ہونگے۔
-10 یہ شرط کہ شرکاء ذاتی طور پر کسی دین اور نقصان کے ذمہ دار نہیں صرف اس صورت میں معتبر ہے جب کہ اس کا اعلان کیا جا چکا ہو۔
فسخ شراکت :
جو تجارتی کاروبار یا کوئی معاملہ دو فریق کے زیر شرکت ہو اس کو فسخ کر دینے یعنی شرکت کو ختم کر دینے کی دو صورتیں ہیں
اول یہ کہ شرکت کو ختم کر دینے پر دونوں فریق راضی ہیں دوم یہ کہ ایک فرق علیحدگی چاہے جیسے وہ مر گیا یا مجنوں ہو گیا یا کسی مطالبے میں مال دینا پڑا جس سے سرمایہ قائم نہیں رہ سکتا یا علیحدگی کی کوئی اور وجہ ہو ان تمام صورتوں میں شرکت ختم ہو کر تقسم عمل میں آجائے گی اگرچہ میت کے ورثاء اور مجنوں کے اولیاء شراکت کو باقی رکھنا چاہیں۔
فسخ شراکت میں فقہی ہدایت یہ ہے کہ
-1 پہلے تمام مطالبات ادا کئے جائیں
-2 ان معاہدوں کی تکمیل کا انتظام بھی ہو جائے جو شراکت کے ذمہ تھے
-3 وہ تمام حقوق جو اصل وہم میں معتبر سمجھے گئے ہیں مثل اموال قیمتی کے تقسم ہوں گے
-4 جو مطالبات دوسروں پر واجب ہیں اور جن کا وصول ہونا باقی ہے وہ بوقت وصول بقدر حصہ ملا کریں گے اور ہر شریک دوسرے کا وکیل سمجھا جائے گا تا کہ تقاضہ اور وصول کرتا رہے
-5 فسخ شراکت کی دوسری صورت میں ان دو چیزوں کا لحاظ ضروری ہے اول یہ کہ شراکت سے علیحدگی اختیار کرنے والا فریق یا اس کے قائم مقام ذمہ داریوں کے بارے میں سبکدوش نہیں ہو سکیں گے۔ دوم یہ کہ جملہ حقوق معتبر مثل دکان ونام وغیرہ میں فریق خارج کو کوئی حق نہیں دیا جائے گا ۔
-6 شراکتی جماعتوں یعنی مشترک تجارتی اداروں اور کمپنیوں پر اس ادارہ یا کمپنی کے مقررہ قانون کے حکم یا حاکم کے حکم کے بغیر ایسے انفساخ کا اثر نہیں پڑھ سکتا کیونکہ کسی شریک کی موت جنون کا افلاس وغیرہ سے اس کا تعلق نہیں ہے۔