معاملات میں وکیل بنانا جائز ہے
راوی:
وعن عروة بن أبي الجعد البارقي : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم أعطاه دينارا ليشتري به شاة فاشترى له شاتين فباع إحداهما بدينار وأتاه بشاة ودينار فدعا له رسول الله صلى الله عليه و سلم في بيعة بالبركة فكان لو اشترى ترابا لربح فيه . رواه البخاري
اور حضرت عروہ بن الجعد بارقی کے بارہ میں منقول ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک دینار دیا تا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک بکری خرید لائیں چنانچہ انہوں نے ایک دینار میں دو بکریاں خرید لیں اور پھر ان میں سے ایک بکری کو ایک دینار کے عوض کسی کے ہاتھ بیچ دیا اس طرح انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بکری دی اور ایک دینار بھی دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس ذہانت سو خوش ہو کر ان کے خرید وفروخت کے معاملات میں برکت کی دعا فرمائی۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ اگر وہ مٹی خرید لیتے تو اس میں بھی انہیں فائدہ ہوتا (بخاری)
تشریح :
ابن ملک کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تجارتی معاملات میں وکالت جائز ہے اسی طرح ان تمام چیزوں میں بھی کسی کو اپنا وکیل بنانا درست ہے جن میں نیابت اور قائم مقامی چلتی ہو۔
اگر کوئی شخص کسی کا مال اس کی اجازت کے بغیر بیچے تو بیع منعقد ہو جاتی ہے لیکن اس کا صحیح ہونا مال کے مالک کی اجازت پر موقوف رہتا ہے اگر مال کا مالک اجازت دے دے گا تو بیع صحیح ہو جائے گی۔ یہ حنفیہ کا مسلک ہے لیکن حضرت امام شافعی کے نزدیک مالک کی اجازت کے بغیر اس کا مال بیچنا سرے سے جائز ہی نہیں ہے اگرچہ بعد میں مالک کی اجازت بھی حاصل کیوں نہ ہو جائے۔