انصار کے مال میں مہاجرین کی شرکت
راوی:
وعن أبي هريرة قال : قالت الأنصار للنبي صلى الله عليه و سلم : اقسم بيننا وبين إخواننا النخيل قال : " لا تكفوننا المؤونة ونشرككم في الثمرة " . قالوا : سمعنا وأطعنا . رواه البخاري
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ جب مکہ سے مہاجرین مدینہ آئے تو انصار یعنی مدینہ کے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارے کھجوروں کے درختوں کو ہمارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم فرما دیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں درختوں کو تقسیم نہیں کروں گا تم ہی لوگ ہماری یعنی مہاجرین کی طرف سے بھی محنت کر لیا کرو ہم پیداوار میں تمہارے شریک رہیں گے۔ انصار نے کہا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کو بسروچشم قبول کرتے ہیں (بخاری)
تشریح :
جب مکہ کے مسلمانوں پر ان کے وطن کی زمین تنگ کر دی گئی اور اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم پر وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آگئے تو چونکہ انہوں نے اپنا سارا سامان واسباب اور مال ومتاع مکہ ہی میں چھوڑ دیا تھا اس لئے یہاں مدینہ میں ان کی معاشی زندگی کا تکفل مدینہ کے مسلمانوں نے کہ جنہیں انصار کہا جاتا ہے اپنے ذمہ لیا اس کی شکل یہ کی گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار مدینہ اور مہاجرین مکہ کے درمین بھائی چارہ کرایا چنانچہ انصار مدینہ نے اپنے تمام مال واسباب میں مہاجرین کو برابر شریک بنا لیا ۔ اسی موقع پر انصار نے آپ سے درخواست کی کہ ہمارے کھجوروں کے درختوں کو بھی ہمارے اور ہمارے مہاجربھائیوں کے درمیان تقسیم فرما دیجئے تاکہ ہم اپنے اپنے حصہ کے درختوں میں محنت مشقت کریں اور ان سے پھل پیدا کریں آپ نے ان سے فرمایا کہ میں درختوں کی تقسیم نہیں کروں گا بلکہ تمہیں لوگ ان درختوں کی دیکھ بھال کرو اور ان میں پانی وغیرہ دینے کی محنت ومشقت خود گوارہ کر لو کیونکہ تمہارے ان بیچارے مہاجرین بھائیوں سے یہ محنت ومشقت برداشت نہیں ہوگی۔ پھر جب پھل تیار ہو جائے گا تو میں تمہارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم کر دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلہ کو انصار نے رضاء ورغبت اور بسروچشم قبول کر لیا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنا، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کی طرف سے محنت ومشقت کرنا مستحب ہے نیز یہ حدیث بھی شرکت کے صحیح ہونیکی دلیل ہے۔