مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ افلاس اور مہلت دینے کا بیان ۔ حدیث 142

آنحضرت کا پائجامہ خریدنا

راوی:

عن سويد بن قيس قال : جلبت أنا ومخرفة العبدي بزا من هجر فأتينا به مكة فجاءنا رسول الله صلى الله عليه و سلم يمشي فساومنا بسراويل فبعناه وثم رجل يزن بالأجر فقال له رسول الله : " زن وأرجح " . رواه أحمد وأبو داود والترمذي وابن ماجه والدارمي وقال الترمذي : هذا حديث حسن صحيح

حضرت سوید بن قیس کہتے ہیں کہ میں اور مخرفہ عبدی نے مقام ہجر سے ( جو مدینہ کے قریب واقع ہے) بیچنے کے لئے کپڑا لیا اور اسے لے کر مکہ میں آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کو جب یہ معلوم ہوا کہ ہم بیچنے کے لئے کپڑا لے کر مکہ آئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) بہ نفس نفیس چل کر (بغیر سواری کے) ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے ایک پائجامہ خریدا چنانچہ جب ہم نے وہ پائجامہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کہ جو اس جگہ اجرت پر لوگوں کے اسباب تولا کرتا تھا فرمایا کہ تم میرے چاندی کے یہ ٹکڑے) تول دو تاکہ میں یہ ٹکڑے اس پائجامہ کی قیمت کے طور پر دیدوں) اور جتنے ٹکڑوں کی بات طے ہوئی ہے اس سے کچھ زیادہ ہی تول دینا) احمد ابوداؤد)

تشریح :
ابولیلی نے اپنی سند میں حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پائجامہ چار درہم کے عوض خرید فرمایا تھا احادیث سے صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پائجامہ خریدنا ثابت ہوتا ہے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پائجامہ پہنا بھی تھا۔
اس حدیث میں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع وانکساری کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پائجامہ خریدنے کے لئے بہ نفس نفیس تشریف لے گئے تھے وہیں اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال اخلاق وکرم فرمائی کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پائجامہ بیچنے والے کو طے شدہ قیمت سے زائد مال عنایت فرمایا۔
یہ حدیث بھی بظاہر اس باب کے موضوع سے متعلق نہیں ہے الاّ یہ کہ یہ کہا جائے کہ بعض وقت بیچنے والے کے افلاس اور اس کی خستہ حالت کی وجہ سے اس کو ازراہ احسان وبھلائی متعینہ قیمت سے کچھ زائد بھی دیدیا جائے اس مناسبت سے یہ حدیث یہاں نقل کی گئی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں