بالکل مفلسی کی حالت میں قرض دارمرنا ایک بڑا گناہ ہے
راوی:
وعن أبي موسى عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " إن أعظم الذنوب عند الله أن يلقاه بها عبد بعد الكبائر التي نهى الله عنها أن يموت رجل وعليه دين لا يدع له قضاء " . رواه أحمد وأبو داود
اور حضرت ابوموسی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کبیرہ گناہ کہ جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے اللہ کے نزدیک ان کے بعد عظیم ترین گناہ کہ جس کا مرتکب ہو کر بندہ اللہ سے ملے یہ ہے کہ کوئی شخص اس حالت میں مرے کہ اس پر قرض کا بوجھ ہو اور اس نے اپنے پیچھے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہو جائے ( احمد ابوداؤد)
تشریح :
بالکل مفلسی کی حالت میں قرض کا بوجھ لے کر مرنے کے گناہ کو گناہ کبیرہ کے بعد کا درجہ اس لئے دیا گیا ہے کہ گناہ کبیرہ تو بذات خود ممنوع ہے لیکن قرض لینا بذات خود ممنوع نہیں ہے کہ وہ گناہ کبیرہ ہو بلکہ بعض احادیث میں تو (اپنی واقعی ضروریات کی تکمیل کے لئے) قرض لینے کو مستحب کہا گیا ہے چنانچہ بعض مواقع پر قرض کی جو ممانعت منقول ہے وہ اس عارض کی بناء پر ہے کہ بسااوقات قرض لینے میں لوگوں کے حقوق ضائع ہوتے ہیں یعنی قرض لینے والا جب قرض کی ادائیگی نہیں کرتا تو قرض خواہ کا مال بلاوجہ ضائع ہو جاتا ہے اس صورت میں قرض لینا گناہ بن جاتا ہے۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں منقول گناہ کبیرہ کی اگر یہ وضاحت کر دی جائے کہ ایسے گناہ کبیرہ جو مشہور ہیں جیسے شرک اور زنا وغیر ہما تو مطلب یہ ہوگا کہ باکل مفلسی کی حالت میں قرض دار مرنے کے گناہ کا درجہ مشہور کبیرہ گناہ جیسے شرک وغیرہ کے بعد ہے اس صورت میں یہ بھی مشہور کبیرہ گناہوں کے علاوہ دوسرے کبیرہ گناہوں کے زمرہ میں آ جائے گا