قرض دار مرنے والے کی نماز جنازہ پڑھنے سے آنحضرت کا انکار
راوی:
وعن أبي سعيد الخدري قال : أتي النبي صلى الله عليه و سلم بجنازة ليصلي عليها فقال : " هل على صاحبكم دين ؟ " قالوا : نعم قال : " هل ترك له من وفاء ؟ " قالوا : لا قال : " صلوا على صاحبكم " قال علي بن أبي طالب : علي دينه يا رسول الله فتقدم فصلى عليه . وفي رواية معناه وقال : " فك الله رهانك من النار كما فككت رهان أخيك المسلم ليس من عبد مسلم يقضي عن أخيه دينه إلا فك الله رهانه يوم القيامة " . رواه في شرح السنة
اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک جنازہ لایا گیا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز پڑھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ لانے والوں سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اس ساتھی پر قرض بھی ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا کہ کیا یہ شخص اپنے قرض کی ادائیگی کے بقدر مال چھوڑ گیا ہے جواب دیا گیا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر تم لوگ اس کی نماز جنازہ پڑھ لو میں نہیں پڑھوں گا حضرت علی نے یہ سن کر کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قرض کی ادائیگی میں اپنے ذمہ لیتا ہوں اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی ۔ ایک روایت میں جو اسی مضمون کی منقول ہے (مگر اس کے الفاظ اس سے مختلف ہیں) یہ الفاظ بھی نقل کئے گئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری جان کو دوزخ کی آگ سے اسی طرح نجات دے جس طرح تم نے اپنے ایک مسلمان بھائی کی جان کو قرض کے بوجھ سے نجات دی ( یاد رکھو) جو بھی مسلمان بندہ اپنے مسلمان بھائی کا قرض ادا کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جان کو نجات دے گا (شرح السنۃ)