قرض دار کی روح قرض کی ادائیگی تک معلق رہتی ہے
راوی:
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه " . رواه الشافعي وأحمد والترمذي وابن ماجه والدارمي وقال الترمذي : هذا حديث غريب
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مؤمن کی روح اپنے قرض کی وجہ سے اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہو جائے ( یعنی جب کوئی شخص قرضدار مرتا ہے تو اس کی روح اس وقت تک بندگان صالح کی جماعت میں داخل نہیں ہوتی جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہو جائے ( شافعی احمد ترمذی ابن ماجہ دارمی)
تشریح :
بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ جو قرض اپنی ادائیگی کے وقت تک مؤمن کی روح کو جنت اور بندگان صالح کی جماعت میں داخل ہونے سے روکتا ہے وہ قرض وہ ہے جو بلا ضرورت واقعی مال و زر کی صورت میں کسی سے لیا گیا ہو اور وہ مال و زر واہیات اور فضول کاموں میں خرچ کیا گیا ہو اور اسے اسراف کے طور پر لٹایا گیا ہو ہاں جس شخص نے اپنی واقعی ضرورت کے لئے مثلًا حقوق واجبہ کی تکمیل یا کسی کے مالی مطالبہ کی ادائیگی کے بقدر ضرورت روپیہ یا مال قرض لیا ہو اور پھر قرض دار اس کو ادا کرنے سے پہلے مر گیا ہو تو ایسا قرض اس کو جنت اور بندگان صالح کی جماعت میں داخل ہونے سے ان شاء اللہ نہیں روکے گا مگر ایسے قرض کے بارے میں سلطان وقت یعنی حاکم (یا قرضدار کے متعلقین میں مستطیع لوگوں ) کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ اس کا قرض ادا کر دیں اور اگر کوئی بھی اس کا قرض ادا نہیں کرے گا تو پر امید ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت میں قرض خواہوں کو راضی کر دے گا تا کہ وہ اس قرض دار سے آخرت میں کوئی مطالبہ نہ کریں۔