قرض خواہ وقرض دار کا تنازعہ ختم کرنا جائز ہے
راوی:
وعن كعب بن مالك : أنه تقاضى ابن أبي حدرد دينا له عليه في عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم في المسجد فارتفعت أصواتهما حتى سمعها رسول الله صلى الله عليه و سلم وهو في بيته فخرج إليهما رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى كشف سجف حجرته ونادى كعب بن مالك قال : " يا كعب " قال : لبيك يا رسول الله فأشار بيده أن ضع الشطر من دينك قال كعب : قد فعلت يا رسول الله قال : " قم فاقضه "
اور حضرت کعب ابن مالک کے بارے میں منقول ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں (ایک دن) انہوں نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ابن ابی حدرد سے اپنے قرض کی واپسی کا تقاضہ کیا یہاں تک کہ جب دونوں کی آوازیں بلند ہوئیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس وقت اپنے حجرہ مبارک میں تشریف فرما تھے ان دونوں کی آوازیں سنیں تو حجرہ سے باہر آنے کا ارادہ فرمایا: چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرہ کا پردہ ہٹایا اور کعب بن مالک کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کعب کعب بن مالک نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ حاضر ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے ذریعے ان کی طرف اشارہ کیا کہ اپنے قرض کا نصف حصہ معاف کر دو کعب نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم میں نے معاف کیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ابی حدرد سے فرمایا کہ اب اٹھ جاؤ اور باقی قرض ادا کر دو (بخاری)
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں کسی سے اپنے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرنا جائز ہے نیز حقدار سے سفارش کرنا جھگڑنے والوں میں صلح صفائی کرانا اور کسی کی سفارش قبول کرنا بشرطیکہ اس سفارش کا تعلق کسی معصیت وبرائی سے نہ ہو جائز ہے۔