مفلس ہو جانے والے کے بارے میں ایک مسئلہ
راوی:
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أيما رجل أفلس فأدرك رجل ماله بعينه فهو أحق به من غيره "
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اگر کوئی شخص مفلس ہو جائے اور وہ شخص (کہ جس نے اس کے ہاتھ اپنے مال بیچا تھا اس کے پاس اپنا مال بعینہ پائے تو وہ کسی دوسرے کے مقابلے میں اس مال کا زیادہ حق دار ہے ۔
تشریح :
اس ارشاد گرامی کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ زید نے بکر سے کوئی مال خریدا مگر اس کی قیمت ابھی ادا نہیں کر پایا تھا کہ مفلس ہو گیا اور حاکم و قاضی نے بھی اس کے مفلس و دیوالیہ ہو جانے کا فیصلہ کر دیا اب بکر (یعنی بیچنے والے) نے دیکھا کہ زید کے پاس اس کا بیچا ہوا مال جوں کا توں موجود ہے یعنی نہ تو وہ ظاہری طور پر ضائع و ہلاک ہوا ہے اور نہ تصرفات شرعیہ مثلًا ہبہ ووقف کے ذریعہ معنوی طو پر ختم ہوا ہے تو اس صورت میں بکر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی کی ہوئی بیع کو فسخ کر دے اور زید سے اپنا مال واپس لے لے کیونکہ دوسرے قرض خواہوں کی بہ نسبت وہ مقدم ہے لہذا بجائے اس کے کہ وہ مال دوسرے قرض خواہ زید سے لیں بکر اس کے لینے کا زیادہ حق دار ہے ۔ اور اگر زید نے مال کی خریداری کے وقت قیمت کا کچھ حصہ ادا کر دیا ہو اور بقیہ حصہ ادا کرنے سے پہلے مفلس ودیوالیہ ہو گیا ہو تو اس صورت میں بکر اس مال کی اتنی ہی مقدار لے جو قیمت کے بقیہ حصہ کے بقدر ہو چنانچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک کا یہی مسلک ہے ان حضرات کی طرف سے اس حدیث کا یہی مطلب بیان کیا جاتا ہے ۔
لیکن حنفیہ کے نزدیک چونکہ اس صورت میں بیچنے والے کو نہ تو بیع فسخ کر دینے کا اختیار ہے اور نہ وہ مال واپس لے لینے کا حق اسے پہنچتا ہے اس لئے حنفیہ اس حدیث کو عقد بالخیار پر محمول کرتے ہیں یعنی ان کے نزدیک اس حدیث کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ بیع اس شرط کے ساتھ ہوئی ہو کہ بیچنے والے کو فلاں مدت تک اس بیع کو فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہوگا چنانچہ بیع کے بعد اگر خریدار مفلس ودیوالیہ ہو جائے اور مدت خیار کے اندر بائع (بچنے والا) کو معلوم ہو گیا کہ خریدار مفلس و دیوالیہ ہو گیا ہے تو اب اس کے لئے زیادہ بہتر یہی ہے کہ بیع کو فسخ کر دے اور اپنا مال واپس لے لے ۔