افلاس اور مہلت دینے کا بیان
راوی:
انسانی زندگی میں کسی ایک حالت کو قرار و دوام نہیں ہے آج کچھ ہے کل کچھ یہ روزانہ کے مشاہدہ کی بات ہے انسان کی اقتصادی و مالی زندگی کو ہی دیکھ لیجئے جس طرح ایک مفلس اور قلاش شخص راتوں رات رحمت الٰہی کے نتیجہ میں مال و زر کے خزانوں کا مالک بن جاتا ہے اسی طرح بڑے بڑے کاروباری دیکھتے ہی دیکھ تے دیوالیہ ہو جاتے ہیں جو لوگ ہر وقت لاکھوں میں کھیلتے رہتے ہیں مال و زر ہی جن کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے چشم وزدن میں وہ پائی پائی کے محتاج نظر آتے ہیں ۔ یہی کائنات کا نظام ہے اور یہی تقدیر کا کھیل ہے حالات کو کسی ایک راستے پر برقرار رکھنا نہ کبھی کسی کے بس میں رہا ہے اور نہ کبھی کسی کے بس میں رہے گا ۔ یہ سارے کھیل قدرت الٰہی کے پابند رہے ہیں اور ہمیشہ اسی طرح پابند رہیں گے لیکن بدلے ہوئے حالات کو متوارن بنانا اور متوازن بنانے میں مدد دینا انسان کے بس میں ہے جسے وہ اختیار کر کے ایک دوسرے کے دکھ درد کو بانٹ بھی سکتا ہے اور بدلے ہوئے حالات کو سنوارنے میں مدد بھی دے سکتا ہے چنانچہ یہاں جو باب قائم کیا گیا ہے اس کے تحت نقل کی جانے والی احادیث کا یہی حاصل ہے کہ اگر کوئی شخص حالات کی تبدیلی کا شکار ہو جائے بایں طور کہ افلاس و تنگدستی اسے اپنی لپیٹ میں لے لے تو دوسرے انسانوں کا نہ صرف یہ فریضہ ہے کہ اس کے ساتھ اظہار ہمدردی کریں بلکہ اگر اس شخص پر کسی کا کوئی حق و مطالبہ ہو اور وہ مفلس ہو جانے کی وجہ سے اس کی ادائیگی سے وقتی طور پر عاجز ہو تو صاحب حق اسے اتنی مہلت دے دے کہ جب بھی اس کے حالات سدھریں وہ اس کا حق ادا کر دے۔