حاکم اپنی طرف سے نرخ مقرر نہ کرے
راوی:
وعن أنس قال : غلا السعر على عهد النبي صلى الله عليه و سلم فقالوا : يا رسول الله سعر لنا فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " إن الله هو المسعر القابض الباسط الرازق وإني لأرجو أن ألقى ربي وليس أحد منكم يطلبنني بمظلة بدم ولا مال " . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه والدارمي
اور حضرت انس کہتے ہیں ایک مرتبہ رسول اللہ کے زمانہ میں غلہ کا نرخ مہنگا ہو گیا تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارے لئے نرخ مقرر فرما دیجئے یعنی تاجروں کو حکم دیدیجئے کہ وہ اس نرخ سے غلہ فروخت کیا کریں ۔ نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی نرخ مقرر کرنے والا اللہ ہی تنگی پیدا کرنے والا اللہ ہی فراخی دینے والا اور اللہ ہی رزق دینے والا ہے ۔ میں اس بات کا امیدوار اور خواہشمند ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ مجھ پر تم میں سے کسی کے خون اور مال کا کوئی مطالبہ نہ ہو۔
تشریح :
اللہ ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے کا مطلب یہ ہے کہ گرانی اور ارزانی اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے نرخ جس کا ظاہری سبب بنتا ہے چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو کبھی تو نرخوں میں کمی اور ارزانی کے ذریعے لوگوں کے رزق میں وسعت و فراخی پیدا کرتا ہے اسی کو بعض لوگ نرخ آسمانی سے تعبیر کرتے ہیں لہذا جب گراں بازاری کا دور ہو اور نرخوں میں اضافے ہو جائیں تو اللہ کی طرف رجوع کیا جائے اور اسی سے مدد مانگی جائے اپنے عقائد و اعمال میں درستی اور اصلاحی کر کے اللہ کی رضا و خو شنودی کا سامان کیا جائے تاکہ وہ اپنے بندوں سے خوش ہو اور ان پر ارزانی وسعت رزق کی رحمت نازل فرمائے ۔
حدیث کے آخری جزء میں اس بات کا امیدوار اور خواہشمند ہوں سے دراصل اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ سرکار و حکومت کی طرف سے نرخ مقرر کیا جانا ممنوع ہے کیونکہ اس طرح لوگوں کے معاملات میں بیجا دخل اندازی ہوتی ہے اور ان کے مال میں ان کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا لازم آتا ہے جو ظلم کی ایک صورت ہے پھر نرخ مقرر کرنے کا ایک برا نتیجہ یہ بھی برآمد ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے بسا اوقات لوگ کاروبار بند کر دیتے ہیں اور تجارتی زندگی میں اضمحلال پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے قحط وقت تک نوبت آ جاتی ہے انجام کار جو چیز مخلوق اللہ کی بھلائی کے لئے اختیار کی جاتی ہے وہی ان کی پریشانیوں اور مصیبتوں کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔
لہذا آپ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ نرخ مقرر کر کے لوگوں کو تکلیف و پریشانی میں مبتلا نہ کیا جائے اور تاجروں پر کوئی نرخ لازم نہ کیا جائے بلکہ اس کی بجائے تاجروں کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ مخلوق اللہ کے ساتھ ہمدردی وانصاف اور خیر خواہی کا معاملہ کریں اور ان کے ضمیر و احساس کو اس طرح بیدار کیا جائے کہ دراز جو نرخوں میں کمی کر کے لوگوں کی پریشانی ومصیبت دور کریں۔