مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ فئی تقسیم کر نے سے متعلق ۔ حدیث 1156

قضیہ فدک وغیرہ کی تفصیل

راوی:

عن المغيرة قال : إن عمر بن عبد العزيز جمع بني مروان حين استخلف فقال : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم كانت له فدك فكان ينفق منها ويعود منها على صغير بني هاشم ويزوج منها أيمهم وإن فاطمة سألته أن يجعلها لها فأبى فكانت كذلك في حياة رسول الله صلى الله عليه و سلم في حياته حتى مضى لسبيله فلما ولي أبو بكر علم فيها بما عمل رسول الله صلى الله عليه و سلم في حياته حتى مضى لسبيله فلما أن ولي عمر بن الخطاب عمل فيها بمثل ما عملا حتى مضى لسبيله ثم اقتطعها مروان ثم صارت لعمر بن عبد العزيز فرأيت أمرا منعه رسول الله صلى الله عليه و سلم فاطمة ليس لي بحق وإني أشهدكم أني رددتها على ما كانت . يعني على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم وأبي بكر وعمر . رواه أبو داود

اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن عبد العزیز ابن مروان ابن حکم رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے مروان کے بیٹوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فدک ( کی زمین و جائداد ) پر اپنا ذاتی حق رکھتے تھے جس کے محاصل ( آمدنی ۔ وپیداوار ) کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( اپنے اہل و عیال و مساکین پر ) خرچ کرتے تھے، اسی میں سے بنو ہاشم کے چھوٹے بچوں ( کی امداد و اعانت پر خرچ کر کے ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے اور بے شوہر عورتوں اور بغیر زن مردوں کی شادی کرتے تھے ! ( ایک مرتبہ ) حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی تھی کہ فدک ( کی زمین و جائداد دیجئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست کو رد کر دیا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے اور جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تو ان کا معمول بھی وہی رہا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی حیات مبارکہ میں رہا تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ معمول کی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی فدک کے محاصل کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل وعیال اور بنو ہاشم کے بچوں پر اور نادار مردوں وعورتوں کی شادی میں خرچ کیا کرتے تھے ) یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ کو پیارے ہوگئے اور ( ان کے بعد ) جب حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تو اس سلسہ میں ان کا بھی عمل وہی رہا جو ان دونوں ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر ) کا رہا تھا یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے اور پھر مروان نے ( حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے میں یا اپنی حکمرانی کے دور میں ) اس ( فدک ) کو اپنی ( اور اپنے وارثین کی ) جاگیر قرار دیا چنانچہ ( اب) وہ جاگیر عمر ابن عبدالعزیز ابن مروان کی ہوگئی ہے، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جس چیز کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اپنی بیٹی ) فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نہیں دیا اس کا مستحق میں بھی نہیں ہو سکتا، لہٰذا میں تمہیں ( اپنے اس فیصلہ کا ) گواہ بناتا ہوں کہ میں نے فدک کو اس کی اسی حیثیت پر واپس کر دیا ہے ۔ جس پر وہ تھا یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زمانے میں ( جس طریقہ پر اس کے محاصل کو خرچ کیا جاتا تھا اب پھر اسی طریقہ پر خرچ کیا جائے گا اور فدک کسی شخص کی ذاتی جاگیر نہیں بنے گا ۔ " ( ابوداؤد )

تشریح :
جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے بنو نضیر، فدک اور خیبر کی زمین، جائدادیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی ملکیت تھیں چونکہ وہ زمین جائدادیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی باقی رہیں تھیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اور خاندان کے کچھ افراد نے ان پر اپنی میراث کا دعویٰ کیا اور خلقت سے اس کا مطالبہ کیا، پھر ان میں آپس میں بھی کچھ اختلافات پیدا ہوئے اس طرح ان زمین جائدادوں کا قصہ بڑا عجیب و غریب ہوگیا اگرچہ وہ ایک وقتی قضیہ تھا جس کی بنیاد کسی غلط جذبہ پر نہیں تھی لیکن پھر بھی بعد کے زمانوں میں کم فہم اور کج رو لوگوں نے اس سے غلط نتائج اخذ کرنے شروع کر دیئے اور ایسے ایسے افسانے تراشے جن سے دوسرے لوگوں کے ذہن بھی فاسد ہوئے اس سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتب صحاح سے منتخب کر کے اس قضیہ کی کچھ تفصیل اور اس کے بارے میں کچھ باتیں نقل کر دی جائیں ۔
صحیح بخاری میں حضرت مالک ابن عوس ابن حدثان سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دن امیر المؤ منین حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ کو اپنے پاس بلاوا بھیجا، میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کا غلام یرفاء آیا اور کہا کہ " امیر المؤمنین " حضرت عثمان ابن عفان حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف حضرت زبیر بن عوام اور حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہم دروازہ پر بیٹھے ہوئے ہیں اور حاضری کی اجازت چاہتے ہیں " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ " آجا نے دو " وہ سب حضرات آگئے، تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آیا اور کہا کہ ( حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما ( حاضری کی ) اجازت چاہتے ہیں، اگر حکم ہو تو آنے دیا جائے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ " آنے دو " جب وہ بھی آگئے تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ " امیر المؤمنین ! ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کیجئے ( یعنی میرے اور علی کے قضیہ کو نمٹائیے ) یہ بنو نضیر کے اس مال و جائداد کے بارے میں جھگڑے کی صورت اختیار کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فئی قرار دیا تھا ۔ " پھر حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے، وہاں موجود دوسرے لوگوں ( یعنی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ ) نے بھی کہا کہ " ہاں امیرالمؤمنین ! ان دونوں کے معاملہ کا تصفیہ کر دیجئے اور ان کو ایک دوسرے ( کے جھگڑے ) سے نجات دلائے " (یہ سن کر) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ " ذرا صبر و سکون سے کام لو ، میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ہم یعنی انبیاء میراث نہیں چھوڑتے ( یعنی ہمارا چھوڑا ہوا مال کسی کا ورثہ نہیں ہوتا ) ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے ۔ " حاضرین نے کہا کہ ہاں ! ( ہم کو یاد ہے ) بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ۔ " پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا ۔ " میں تم دونوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم کو نہیں معلوم کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ؟ " حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ " ہاں ! ( ہم کو بھی یاد ہے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ " تو میں تم کو اس بات سے ( بھی آگاہ کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مال فئی کے بارے میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ خاص خصوصیت عطا کی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کسی کو عطا نہیں کی پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت (مَا اَفَا ءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِه مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى) 59۔ الحشر : 7) آخر تک پڑھی اور فرمایا کہ ۔ پس یہ سارا مال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص تھا، لیکن اللہ کی قسم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال کو تمہارے پاس جمع نہیں کیا اور نہ اس کے ذریعہ تم پر کوئی ایثار کیا، ( بلکہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ مال تمہیں ( ہی ) دیا کرتے تھے اور تمہارے درمیان تقسیم کرتے تھے، پھر جو کچھ بچتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنے اہل وعیال کا خرچ چلاتے اس کے بعد بھی جو بچ جاتا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیک کاموں ( جیسے فقراء ومساکین کی امداد و اعانت ) اور عام مسلمانوں کے اجتماعی مفاد و مصالح ( جیسے ہتھیاروں اور گھوڑوں وغیرہ کی خریداری ) میں صرف کرتے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زندگی کے آخر تک یہی معمول رہا، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کہہ کر کے " میں رسول اللہ کا خلیفہ ہوں ۔ " اس مال کو اپنے قبضے میں لے لیا اور اس کے خرچ و تصرف کا وہی نظام باقی رکھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کیا ۔ ' '
( اس موقع پر ) حضرت علی وحضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ " تم اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر برائی کے ساتھ کیا کرتے تھے اور کہا کر تے تھے کہ اس بارے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحیح راستے پر نہیں ہیں، حالانکہ تم جو کہتے تھے ویسا نہیں تھا اور اللہ خوب جانتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اس عمل میں صادق، نیکو کار، ہدایت یافتہ اور حق کے تابع تھے، پھر جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ کو پیارے ہوگئے ( اور میں خلیفہ بنا ) تو میں نے کہا کہ میں رسول اللہ کا خلیفہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ولی ( جانشین ) ہوں، اس لئے میں نے اس مال و جائداد کو دو سال تک اپنے اختیار و قبضے میں رکھا اور اس کے خرچ وتصرف کا وہی نظم و طریقہ اختیار کیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں اپنی اس بات اور اپنے اس عمل میں صادق، نیکو کار، ہدایت یافتہ اور حق کے تابع ہوں، ڈیڑھ دو سال کے بعد تم دونوں ( علی و عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) میرے پاس آئے اور تم دونوں نے ایک ہی بات کہی ( کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مال ہم کو دے دو ) میں نے ( تمہارے مطالبہ کے جواب میں ) تم سے کہا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ " ہم ( انبیاء ) میراث نہیں چھوڑتے بلکہ ہم جو کچھ چھورتے ہیں وہ صدقہ ( ہوتا ) ہے ۔ " لیکن جب میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ مجھے اس مال و جائداد کو تمہارے سپرد کر دینا چاہئے تو میں نے تم سے کہا کہ " اگر تم چاہتے ہو تو میں یہ مال وجائداد اس شرط پر تمہارے سپرد کر سکتا ہوں کہ تم ( اس بات کا عہد کرو کہ ) اس مال کو خرچ کرنے کا وہی نظم و طریقہ باقی رکھو گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کیا تھا اور جس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور خلیفہ ہونے کے بعد میں نے عمل کیا تھا اور اگر تم لوگوں کو یہ شرط منظور نہ ہو تو پھر آئندہ اس بارے میں مجھ سے کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ " تم نے ( اس شرط کو منظور کر لیا اور ) کہا کہ " آپ اس مال و جائداد کو اس شرط پر ہمارے حوالے کر دیجئے ۔ " چنانچہ میں نے تمہارے سپرد کر دیا ۔ ( تم لوگوں کو یہ ساری بات اچھی طرح یاد ہوگی ) تو کیا تم لوگ اب مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ ( اس سلسلے میں جو بات میرے اور تمہارے درمیان طے ہوچکی ہے ) میں اس کے خلاف فیصلہ کروں ؟ نہیں ! اس اللہ کی قسم جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، میں قیامت تک بھی اس کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتا، ہاں اگر تم اس مال و جائداد کے انتظام سے عاجز آگئے ہو تو اس کو دوبارہ میرے حوالے کر دو میں تمہیں اس کے انتظامی جھمیلوں سے بے پرواہ کر دوں گا اور خود مشقّت اٹھا کر ( بھی) اس کا انتظام کروں گا۔ "
اس روایت کے راوی حضرت امام زہری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کے بارے میں حضرت عروہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ مالک ابن اوس نے بالکل صحیح بیان کیا ہے ۔ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ( کچھ ) ازواج مطہرات نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج کر اس مال وجائداد کی اپنی میراث کا مطالبہ کیا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مال فئی کے طور پر عطا کیا تھا ( جب مجھے یہ معلوم ہوا تو ) میں نے ان کی مخالفت کی اور ان سے کہا کہ تمہیں اللہ کا خوف محسوس نہیں ہوتا ؟ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد تمہارے علم میں نہیں ہے کہ " ہم میراث نہیں چھوڑتے بلکہ ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ( ہوتا ) ہے اور آل محمد اس میں سے کھائے گی ۔ " تب ازواج مطہرات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کے مطالبہ سے باز آئیں اور میری بیان کی ہوئی حدیث کی بناء پر انہوں نے رجوع کر لیا ۔
حضرت عروہ کہتے تھے ( حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ صدقہ یعنی بنو نضیر کا وہ مال جو مدینہ میں تھا اور جس کے بارے میں مذکورہ بالا قضیہ تھا حضرت علی و حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی تولیت میں دے دیا تھا تو کچھ دنوں کے بعد ) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر غلبہ حاصل کر کے ان کو تنہا اپنے قبضہ تولیت میں لے لیا تھا، ان کے بعد حضرت حسن ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبضے میں آیا، حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبضے میں آیا ۔ اس کے بعد حضرت علی ابن حسین اور حسن ابن حسین کے قبضے میں رہا کہ یہ دونوں باری باری اس کو اپنے قبضے میں رکھتے تھے، ان کے بعد زید ابن حسن کے پاس آگیا ۔ اور ایمانداری وسچائی کے ساتھ یہ (مال وجائداد ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ ہے کسی شخص کی میراث و ملکیت نہیں ہے ۔ "
یہ بخاری کی حدیث کا اختصار ہے جس کو انہوں نے کتاب المغازی میں بنو نضیر کے واقعہ کے تحت نقل کیا ہے ۔ کتاب الخمس میں بھی بعض الفاظ کے فرق کے ساتھ اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے ۔
یہ روایت بھی بخاری کی ہے کہ حضرت عائشہ صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور عباس، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس فدک کی زمین و جائداد و خیبر کے حصے کی میراث کا مطالبہ لے کر آئے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " ہم کسی کو اپنے مال کا وارث نہیں چھوڑتے، ہم جو کچھ چھوڑیں صدقہ ہے ۔ اس مال میں سے آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کھائے گی ۔ " اللہ کی قسم میرے نزدیک رسول اللہ کی قرابت ( والوں کے حقوق کی حفاظت کرنا ) اور ان کے ساتھ حسن سلوک و بھلائی کا معاملہ کرنا اپنے قرابت والوں کے ساتھ حسن سلوک سے زیادہ محبوب اور عزیز تر ہے ۔
پیچھے جو طویل حدیث نقل کی گئی ہے اور جس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اپنا قضیہ لے کر آنے کا ذکر ہے اس کو صاحب جامع الاصول نے بھی اپنی کتاب میں بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور نسائی کے حوالہ سے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ( اس حدیث کے سلسلے میں ) ابوداؤد نے یہ وضاحت کی ہے کہ حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو مطالبہ کیا تھا اس کا مقصد صرف یہ درخواست کرنا تھا کہ آپ نے جس مال وجائداد کو مشترکہ طور پر ہم دونوں کی تولیت میں دیا تھا اب اس کے آدھوں آدھ بانٹ کر ہم دونوں کی تولیت اور سپردگی میں الگ الگ حصہ دے دیجئے، نہ کہ وہ دونوں حضرات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد " ہم ( انبیاء) میراث نہیں چھوڑتے ۔ " سے غافل و لا علم تھے اور واقعۃً ان کا مقصد اس مال و جائداد کو اپنی میراث قرار دینا تھا، چنانچہ ان دونوں کی نیت بھی صادق تھی اور ان کا مطالبہ بھی ایک درست عمل ( یعنی اس مال و جائداد کے انتظام میں زیادہ بہتری پیدا کرنے کے تقاضے کے پیش نظر تھا تاہم اس کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے مطالبہ کو پورا نہیں کیا بلکہ انہوں نے یہ واضح کر دیا کہ میں اس کو گوارا نہیں کر سکتا کہ کسی بھی صورت میں اس مال و جائداد پر تقسیم کا نام آئے بلکہ اس کو جوں کا توں رکھنا ہی میرے نزدیک زیادہ ضروری ہے ۔
بخاری نے کتاب الخمس میں حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ان ( عروہ ) سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مطالبہ کیا کہ ان کو میراث دی جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مال وجائداد میں سے چھوڑ گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال فئی کے طور پر عطا فرمایا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو جواب دیا کہ " (تمہارا یہ مطالبہ قابل تسلیم نہیں ہے کیونکہ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ :
لانورث ماترکناہ صدقۃ
یعنی ہم انبیاء میراث نہیں چھوڑتے ہم جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہے ۔"
اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ انہوں یہ حدیث بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ وہ مال میرے قبضہ و اختیار میں ہے اور جب میں مرجاؤں گا تو اس شخص کے قبضہ واختیار میں ہوگا جو میرے بعد خلافت و امارت کی ذمہ داریاں سنبھالے گا ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس بات سے سخت ناگواری ہوئی یہاں کہ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہجران (یعنی ترک سلام و کلام ) کرلیا اور اپنی وفات تک اسی ترک سلام و کلام پر قائم رہیں ۔ واضح رہے کہ حضرت فاطمہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صرف چھ مہینے تک بقید حیات رہیں ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ۔
حضرت فاطمہ، حضرت ابوبکر صدیق سے اس مال وجائداد میں سے اپنے مال وحصے کا مطالبہ کیا کرتی تھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر وفدک کی زمین وباغات اور مدینہ میں اپنے صدقہ (یعنی بنو نضیر کے مال و جائداد ) کی صورت میں چھوڑا تھا، لیکن حضرت ابوبکر صد یق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے اس مطالبہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا کرتے تھے میں کسی ایسی چیز کو ترک نہیں کروں گا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رہا ہو، اس مال وجائداد کے بارے میں میرا وہی عمل رہے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رہا ہے، مجھے خوف محسوس ہوتا ہے کہ اگر میں کسی ایسی چیز پر عمل کرنے سے باز رہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و منشاء کے مطابق ہے تو یقینًا میرا یہ فعل راہ حق سے اعراض و گریز کے مرادف ہوگا ۔" چنانچہ (حضرت ابوبکر صدیق آخر تک اپنے اسی فیصلے پر قائم رہے اور پھر ان کی وفات کے بعد ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ صورت اختیار کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں جو صدقہ چھوڑا تھا (یعنی بنو نضیر کی زمین وجائداد ) اس کو تو حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے سپرد کردیا (کہ وہ دونوں حضرات مشترکہ طور پر اس کی تولیت کے فرائض انجام دیں ) اور خیبر وفدک کی زمین، جائداد کو اپنی تولیت میں رکھا اور فرمایا کہ" یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (چھوڑا ہوا) صدقہ ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق متعلق تھے ۔ نیز انہوں نے (کسی فرمان یا وصیت کے ذریعہ ) ان زمین و جائدادوں کا متولی و نگران اسی شخص کو قرار دیا جو خلافت وامارت کی ذمہ داریاں سنبھالے ۔ چنانچہ وہ اب تک اسی صورت حال کے مطابق ہیں ۔
بہرحال، اس بارے میں اوپر جو احادیث نقل کی گئیں یا وہ احادیث جو اسی مفہوم ومضمون سے متعلق صحاح ستہ میں متعدد طرق واسانید سے منقول ہیں ان سب سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ارشاد گرامی لا نورث ماترکناہ صدقۃ کا صحیح تر ثابت اور معمول بہ ہونا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مال و جائداد کی قسم سے جو کچھ چھوڑا اس کا عام مسلمانوں کے درمیان مشترک ہونا اور ان کے اجتماعی مفاد و مصالح میں خرچ کیا جانا اور اس کا اس شخص کے قبضہ اختیار میں ہونا جو خلافت و امارت کا منصب سنبھالے ہوئے ہو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حتی کے حضرت عباس کے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک بھی ایک متفقہ علیہ مسئلہ تھا ۔
لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس مال وجائداد کو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تولیت میں دیا جانا ایک درست عمل اور بہتر طریقہ تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شروع ہی میں یہ صورت اختیار کیوں نہ کرلی اور اگر وہ کوئی درست عمل اور بہتر طریقہ نہیں تھا تو پھر انہوں نے بعد میں اس مال وجائداد کو ان لوگوں کی تولیت میں کیوں دیا ؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ شروع میں ان دونوں کا مطالبہ چونکہ یہ تھا اس مال وجائداد کو ان کی ملکیت میں دے دیا جائے اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے مطالبہ کو منظور نہیں کیا اور پھر بعد میں جو ان لوگوں کو دیا تو اس کی بنیاد یہ تھی کہ ان لوگوں کو اس مال و جائداد کا مالک نہیں بنایا گیا بلکہ صرف متولی و منتظم بنایا گیا تھا اور یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ اس کو انہیں مصارف میں خرچ کیا جائے گا جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے ۔ مگر بات یہیں صاف نہیں ہوجاتی بلکہ جیسا کہ خطابی نے کہا ہے، مسئلہ میں ایک دوسری طرف سے الجھاؤ پیدا ہوتا ہے اور وہ اس سوال کی صورت میں کہ جب حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس مال وجائداد کو مذکورہ شرط پر قبضہ میں لیا تھا اور ان لوگوں یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ یہ مال وجائداد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ورثہ نہیں ہے اور جلیل القدر مہاجر صحابہ کرام نے اس کی تصدیق بھی کی تھی تو پھر آخر ان لوگ کے درمیان یہ اختلاف وخصومت کی شکل کیوں پیدا ہوئی ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس تولیت میں شرکت دونوں ہی پر شاق گزر رہی تھی لہٰذا انہوں نے یہ درخواست کی کہ اس مال و جائداد کو تقسیم کرکے ہر ایک کو ایک ایک حصے کا منتظم ومتولی بنادیا جائے تاکہ دونوں ایک دوسرے سے کوئی واسطہ رکھے بغیر اپنے اپنے حصے کی دیکھ بھال اور اس کے اور خرچ و تصرف کا انتظام آزادی ویکسوئی کے ساتھ کرتے رہیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی درخواست کو اس لئے قبول نہیں کیا کہ مبادا یہ تقسیم ملکیت کی صورت کے مشابہ ہوجائے کیونکہ تقسیم املاک میں ہوا کرتی ہے دوسرے یہ کہ فی الوقت نہ صحیح لیکن طویل زمانہ گزر جانے پر اس میں خود باخود ملکیت کا شائبہ ہونے لگتا ہے ۔
حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے زیادہ الجھا ہوا مسئلہ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہے کیونکہ اگر ان کے مطالبہ کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے قطعا لاعلم تھیں تو یہ بات بعید از حقیقت ہوگی اور اگر یہ کہا جائے کہ بہرحال ممکن ہے کہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد سننے کا اتفاق نہ ہوا ہو تو پھر یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان فرمایا اور دوسرے صحابہ کرام نے بھی اس کی تصدیق کی تو پھر انہوں نے اس بات کو قبول کرنے سے کیوں انکار کیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اس قدر ناراضگی کی صورت کیوں اختیار کی یا اگر ناراضگی کی صورت اس حدیث کو سننے سے پہلے پیدا ہوچکی تھی تو سننے کے بعد انہوں نے اس کو ختم کیوں نہیں کیا جس نے اتنا طول کھینچا کہ وہ زندگی کے آخری لمحہ تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ترک سلام و کلام پر قائم رہیں ۔؟
کرمانی نے بخاری کی شرح میں اس کا جواب یہ لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ناراضگی اصل میں ایک ایسی صورت تھی جو ان میں بتقاضائے بشریت پیدا ہوگی اور " ہجران " سے ہجران محرم یعنی ترک و سلام و کلام اور انقطاع تعلق مراد نہیں ہے بلکہ ملنے جلنے سے طبیعت میں انقباص و کوفت کا پیدا ہوجانا مراد ہے ۔
علاوہ ازیں بعض روایت میں منقول ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے درمیان مذکورہ صورت حال پیدا ہوگئی (کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مطالبہ تسلیم نہ کئے جانے کی وجہ سے وہ ان سے ناراض ہوگئیں ) تو (ایک دن ) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے اور آفتاب کی سخت گرمی اور دھوپ کی شدید تمازت کے باوجود ان کے دروازے پر کھڑے رہے اور ان سے عذر خواہی کرتے رہے اور یہ فرمایا کہ " اللہ کی قسم !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت (کے حقوق کی رعایت وحفاظت ) مجھے اپنی قرابت سے زیادہ محبوب اور عزیز تر ہے لیکن میں کیا کروں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو سنا ہے اور دوسرے صحابہ کرام اس پر گواہ ہیں ۔"
تب حضرت فاطمہ (کا دل صاف ہوگیا اور ان ) کی ناراضگی ختم ہوگئی ۔
تمت بالخیر

یہ حدیث شیئر کریں