مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ فئی تقسیم کر نے سے متعلق ۔ حدیث 1155

قضیہ فدک میں حضرت عمر کا استدلال

راوی:

وعنه قال : كان فيما احتج فيه عمر أن قال : كانت لرسول الله صلى الله عليه و سلم ثلاث صفايا بنو النضير و خيبر وفدك فأما بنو النضير فكانت حبسا لنوائبه وأما فدك فكانت حبسا لأبناء السبيل وأما خيبر فجزأها رسول الله صلى الله عليه و سلم ثلاثة أجزاء : جزأين بين المسلمين وجزء نفقة لأهله فما فضل عن نفقة أهله جعله بين فقراء المهاجرين . رواه أبو داود

" اور حضرت مالک ابن اوس کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس بات سے استدلال کیا وہ یہ تھی کہ انہوں نے فرمایا کہ " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین صفایا تھیں ۔ ١ بنو نضیر ۔ ٢خیبر ۔ ٣ فدک ۔ چنانچہ بنو نضیر ( کے جلا وطن ہو جانے کے بعد ان کی جو زمین جائداد قبضے میں آئی تھی اس سے حاصل ہونے والا مال ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخراجات ( جیسے مہمانوں کی ضیافت و تواضع اور مجاہدین کے لئے ہتھیاروں اور گھوڑوں کی خریداری وغیرہ ) کے لئے مخصوص تھا ۔ فدک کے محاصل (ان) مسافروں ( کی امداد و اعانت کرنے کے لئے ) مخصوص تھے ( جو اگرچہ اپنے وطن میں تو مال رکھتے ہوں مگر سفر کے دوران ان کے پاس مال و اسباب ختم ہوگیا ہو ) ۔ اور خیبر ( کے محاصل ) کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حصے کر رکھے تھے، ان میں سے دو حصے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں میں تقسیم کر دیتے تھے اور ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے اخراجات کے لئے رکھتے تھے اور اس میں سے بھی اہل و عیال کے خرچ سے جو کچھ بچ جاتا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نادار مہاجرین پر خرچ کر دیتے تھے ۔ " ( ابوداؤد )

تشریح :
" جس بات سے استدلال کیا الخ یعنی جب حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما فدک کے مال کے بارہ میں اپنا مطالبہ لے کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے مطالبہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اور جن جائداد و زمینوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی حق تھا ( جیسے بنو نضیر، خیبر اور فدک کی زمین، جائدادیں ) ان کے بارہ میں مذکورہ بالا تفصیل بیان کی اور چونکہ اس تفصیل کے بیان کے وقت دوسرے صحابہ بھی موجود تھے جن میں سے کسی نے بھی حضرت عمر کی بیان کردہ تفصیل کی تردید نہیں کی اس لئے گویا یہ بات ان کے فیصلے کی دلیل قرار پائی ۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنا ضرور کیا کہ حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو فدک کے محاصل کا متولّی بنادیا کہ وہ دونوں اس محا صل کو اسی طرح صرف کریں جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف کیا کرتے تھے ۔
" صفایا " صفیہ کی جمع ہے " صفیہ " اس کو کہتے ہیں کہ امام وقت ( اسلامی مملکت کا سربراہ ) مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کوئی چیز چھانٹ کر اپنے لئے مخصوص کرے ۔ یہ بات صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت میں سے خمس کے علاوہ اور بھی جو چیز جیسے لونڈی، غلام، تلوار اور گھوڑا وغیرہ چاہتے اس کو لے لینے کا حق رکھتے تھے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی دوسرے امام وقت کے لئے یہ بات جائز نہیں ۔
" فدک " ایک بستی کا نام تھا جو خیبر کے مواضعات میں سے تھی اور مدینہ سے دو روز کے فاصلہ پر واقع تھی یہ ایک شاداب اور سرسبز جگہ تھی جہاں زیادہ تر کھجور کے اور تھوڑے بہت دوسرے پھلوں کے باغات تھے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فدک پر صلح کے ذریعہ تسلّط حاصل ہوا تھا اور صلح کی بنیاد یہ معاہدہ تھا کہ وہاں کی آدھی زمین تو فدک والوں کی رہے گی آدھی زمین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہوگا، چنانچہ فدک کی وہ آدھی زمین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی ملکیت میں رہی جس کی آمدنی اور پیداوار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث کے مطابق محتاج مسافروں کی امداد و اعانت فرماتے تھے ۔
خیبر کے محاصل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین حصوں میں اس لئے تقسیم کرتے تھے کہ خیبر کا علاقہ اصل میں بہت سارے مواضعات اور بستیوں پر مشتمل تھا ان میں سے بعض گاؤں تو بزور طاقت فتح کئے گئے تھے اور بعض گاؤں بغیر جنگ و جدال کے صلح کے ذریعہ قبضہ واختیار میں آئے تھے، چنانچہ جو گاؤں بزور طاقت فتح کئے گئے تھے ان سے حاصل ہونے والا مال چونکہ " مال غنیمت " تھا اس لئے اس میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خمس لیتے تھے اور جو گاؤں بذریعہ صلح قبضہ واختیار میں آئے تھے ان سے حاصل ہونے والا مال چونکہ " مال فئی " تھا اس لئے وہ تمام تر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی ملکیت تھا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ضروریات اپنے اہل و عیال کے اخراجات اور عام مسلمانوں کے اجتماعی مفاد و مصالح میں جہاں مناسب سمجھتے خرچ کرتے تھے ۔ لہٰذا اس بنا پر تقسیم و مساوات کا تقاضہ یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کے سارے مال کو اپنے اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے تین حصوں میں کر کے دو حصے مسلمانوں کو دیں اور ایک حصہ اپنے پاس رکھیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں