جزیرۃ العرب سے یہودیوں کا اخراج
راوی:
4051 – [ 2 ] ( صحيح )
وعن ابن عمر قال : قام عمر خطيبا فقال : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان عامل يهود خيبر على أموالهم وقال : " نقركم ما أقركم الله " . وقد رأيت إجلاءهم فلما أجمع عمر على ذلك أتاه أحد بني أبي الحقيق فقال : يا أمير المؤمنين أتخرجنا وقد أقرنا محمد وعاملنا على الأموال ؟ فقال عمر : أظننت أني نسيت قول رسول الله صلى الله عليه و سلم : " كيف بك إذا أخرجت من خيبر تعدو بك قلوصك ليلة بعد ليلة ؟ " فقال : هذه كانت هزيلة من أبي القاسم فقال كذبت يا عدو الله فأجلاهم عمر وأعطاهم قيمة ما كان لهم من الثمر مالا وإبلا وعروضا من أقتاب وحبال وغير ذلك . رواه البخاري
" اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ( ایک دن ) امیر المؤمنیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور ( اس خطبہ میں ) فرمایا کہ " ( تم سب جانتے ہو گے کہ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے ان کے مال و جائداد سے متعلّق ایک معاملہ طے فرمایا تھا ( اور وہ یہ کہ ان یہودیوں کو خیبر ہی میں رہنے دیا جائے گا نیز ان کے کھجوروں کے باغات اور کھیت کھلیان کو بھی انہی کی تحویل و ملکیت میں باقی رکھاجائے گا البتہ ان کی پیداوار اور آمدنی میں سے آدھا حصہ لیا جایا کرے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اسی طرح جزیہ بھی مقرر کیا تھا ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اسی وقت ) ان یہودیوں سے فرمادیا تھا کہ ہم تمہیں ( خیبر میں ) اس وقت تک رہنے دیں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں رہنے دے گا ( یعنی تم لوگ اس وقت تک خیبر میں مقیم رہنے کے حق دار ہو گے جب تک کہ ہمیں اللہ تعالیٰ تم کو جلا وطن کر دینے کا حکم نہ دے دے ) لہٰذا ( حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ) اب میں ان کو جلا وطن کر دینا مناسب سمجھتا ہوں ۔ "
پھر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کا فی صلہ کر لیا ( کہ ان کو جلا وطن کر دیا جائے ) تو ( ان یہودیوں کے ) قبیلہ بنی ابی الحقیق کا ایک شخص ( جو اپنی قوم کا بڑا بوڑھا سردار تھا ) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ امیر المؤمنین ! کیا آپ ہمیں جلا وطن کر رہے ہیں حالانکہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہمیں (خیبر میں ) رہنے دیا تھا، اور ہمارے مال واسباب سے متعلّق ہم سے ایک معاملہ بھی طے کیا تھا !؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ " کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی (یہ) بات بھول گیا ہوں ( جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو مخاطب کر کے کہی تھی ) کہ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا اور تو کیا کرے گا جب تجھ کو خیبر سے جلا وطن کر دیا جائے گا اور رات کے بعد رات میں تیری اونٹنی تیرے پیچھے دوڑ رہی ہوگی ( گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ کو اس آنے والے وقت سے ڈرایا تھا جب تجھ کو راتوں رات خیبر سے نکل جانا پڑے گا ) " اس شخص نے ( یہ سن کر ) کہا کہ " یہ بات تو ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور مذاق کہی تھی ۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ " اے اللہ کے دشمن، تم جھوٹ بکتے ہو ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات مذاق کے طور پر نہیں کہی تھی بلکہ ازراہ معجزہ تمہیں ایک غیبی بات کی خبر دی تھی ) اور پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہودیوں کو جلا وطن کر دیا اور ان کے پاس از قسم میوہ جو کچھ تھا جیسے کھجوریں وغیرہ ان کی قیمت میں ان کو مال، اونٹ اور اسباب جیسے رسیاں اور پالان وغیرہ دے دیئے ۔ ( بخاری )