عورتوں کی اجتماعی بیعت کا مسنون طریقہ
راوی:
وعن أميمة بنت رقيقة قالت : بايعت النبي صلى الله عليه و سلم في نسوة فقال لنا : " فيما استطعتن وأطقتن " قلت : الله ورسوله أرحم بنا منا بأنفسنا قلت : يا رسول الله بايعنا تعني صافحنا قال : " إنما قولي لمائة امرأة كقولي لامرأة واحدة " . رواه الترمذي والنسائي وابن ماجه ومالك في الموطأ
" اور حضرت امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کچھ عورتوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ( یعنی ہم چند عورتوں نے اجتماعی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ) چنانچہ ( اس وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ ( اے خواتین !میں نے تمہیں اسی چیز پر بیعت کیا ہے ) جس ( پر عمل کرنے ) کی طاقت و استطاعت رکھتی ہو ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہ شفقت ان عورتوں کی بیعت کو ان کی عملی استطاعت وہمّت تک محدود رکھا ) ۔ " میں نے کہا کہ ( بے شک ) اپنی ذات پر ہم خود مہر بان اور رحم دل ہو سکتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہمارے حق میں اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم رحم کرنے والے ہیں اور پھر میں نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! ہمیں بیعت کر لیجئے " ۔ اس بات سے ان کی مراد یہ تھی کہ ہم سے مصافحہ کیجئے یعنی بیعت کرتے وقت ہمارا ہاتھ اپنے دست مبارک میں پکڑیئے ۔ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" میرا سب عورتوں سے کچھ کہنا ایک عورت سے کہہ دینے کی طرح ہے، یعنی اوّل تو عورتوں کو بیعت کرتے وقت صرف زبان سے یہ کہہ دینا کافی ہے کہ میں نے تمہیں بیعت کیا اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ دوم یہ کہ اگر کچھ عورتیں اجتماعی طور پر بیعت ہو رہی ہوں تو زبان سے یہ کہنے کے لئے بھی الگ الگ ہر عورت سے مخاطب ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف ایک عورت سے کہہ دینا سب عورتوں کے لئے کافی ہے ۔ "
تشریح :
مشکوٰۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد جگہ خالی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مؤلف مشکوٰۃ کو اس حدیث کے مآخذ کی تحقیق نہیں ہو سکی ہے ۔ لیکن حاشیہ میں بعض شارحین نے یہ عبارت لکھ دی ہے کہ رواہ الترمذی والنسائی وابن ماجہ ومالک فی الموطا کلہم من حدیثی محمد بن المنکدر انہ سمع من ائمۃ الحدیث و قال الترمذی حدیث حسن صحیح لایعرف الا من حدیث ابن المنکدر ۔