مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ صلح کا بیان ۔ حدیث 1135

صلح حدیبیہ کی تین خاص شرطیں

راوی:

4044 – [ 3 ] ( صحيح )
وعن أنس : أن قريشا صالحوا النبي صلى الله عليه و سلم فاشترطوا على النبي صلى الله عليه و سلم أن من جاءنا منكم لم نرده عليكم ومن جاءكم منا رددتموه علينا فقالوا : يا رسول الله أنكتب هذا ؟ قال : " نعم إنه من ذهب منا إليهم فأبعده الله ومن جاءنا منهم سيجعل الله له فرجا ومخرجا " . رواه مسلم

" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ( مکہ کے ) قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مصالحت کی ۔ چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ شرط منوائی کہ آپ میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے ہم اس کو واپس نہیں کریں گے اور ہم میں سے جو شخص آپ کے پاس آئے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کو ہمارے پاس واپس کر دیں گے ۔ صحابہ نے ( اس شرط کو اپنی ملی حمیّت و وقار کے منافی اور اصول مصالحت کے تقاضوں سے بعید جان کر ) عرض کیا کہ " یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا ہم ان شرائط کو لکھ دیں یعنی کیا یہ شرائط آپ تسلیم کر تے ہیں ؟ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " ہاں ! بات یہ ہے کہ ہم میں سے جو شخص ان کے پاس جائے گا، تو ( ظاہر ہے کہ وہ مرتد ہو کر بھاگے گا اس اعتبار سے ) وہ ( ایک ایسا ) شخص ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور کر دیا ہوگا، اور ان میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے گا ( اس کو اگرچہ اس وقت ہم واپس کرنے پر مجبور ہوں گے لیکن آخر کار ) اللہ تعالیٰ جلد ہی اس کے لئے شادمانی و کشادگی اور خلاصی ونجات کے سامان پیدا کر دے گا ۔ " (مسلم)

یہ حدیث شیئر کریں