مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ صلح کا بیان ۔ حدیث 1134

صلح حدیبیہ کی تین خاص شرطیں

راوی:

وعن البراء بن عازب قال : صالح النبي صلى الله عليه و سلم المشركين يوم الحديبية على ثلاثة أشياء : على أن من أتاه من المشركين رده إليهم ومن أتاهم من المسلمين لم يردوه وعلى أن يدخلها من قابل ويقيم بها ثلاثة أيام ولا يدخلها إلا بجلبان السلاح والسيف والقوس ونحوه فجاء أبو جندل يحجل في قيوده فرده إليهم
(2/419)

" اور حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے دن تین باتوں پر صلح کی تھی ۔ اول تو یہ کہ ( مکہ کے) مشرکین میں سے جو شخص ( مسلمان ہو کر ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے گا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو مشرکین کے پاس واپس کر دیں گے اور مسلمانوں میں سے جو شخص مشرکین کے پاس آئے گا اس کو مشرکین واپس نہیں کریں گے ، دوم یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( حج و عمرہ کے لئے اس سال مکہ میں داخل نہ ہوں بلکہ ) آئندہ سال مکہ آئیں اور صرف تین دن مکہ میں ٹھہریں اور سوم یہ کہ ( آئندہ سال ) مکہ میں جب داخل ہوں تو اپنے تمام ہتھیار ، تلوار ، کمان اور اسی طرح کی دوسری چیزیں غلاف میں رکھ کر لائیں ۔ اس موقع پر ابوجندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حال میں پہنچے کہ ان کے پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوئیں تھیں جن کی وجہ سے وہ کود ( کود کر چل رہے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مشرکین کے پاس واپس بھیج دیا ۔ " ( بخاری ومسلم )

تشریح :
جلبان چمڑے کا ایک تھیلا ہوتا تھا جس کا مصرف یہ تھا کہ جب لوگ سفر کرتے تو نیام سمیت تلواریں اور دوسرے ہتھیار وغیرہ اس میں رکھ کر گھوڑے کی زین کے پچھلے حصہ میں لٹکا دیتے تھے ۔ یہاں جلبان یعنی غلاف میں ہتھیاروں کو رکھ کر لانے کی شرط سے مشرکین کی مراد یہ تھی کہ جب آئندہ سال مسلمان مکہ آئیں تو اپنے ہتھیار ننگے کھلے لے کر شہر میں نہ داخل ہوں بلکہ ان کو نیام وغیرہ میں رکھیں تاکہ اس طرح مسلمانوں کے غلبہ ان کی طاقت کی فوقیت و برتری اور ان کے جنگی ارادوں کا اظہار نہ ہو ۔
حضرت ابوجندل ابن سہیل جن کے بارے میں پچھلی حدیث کے ضمن میں بھی بیان کیا جا چکا ہے ، مکہ ہی میں اسلام قبول کر چکے تھے اور جن دنوں صلح حدیبیہ ہوئی ہے وہ مشرکین مکہ کی قید میں تھے، چنانچہ وہ کسی طرح مکہ سے بھاگ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حدیبیہ پہنچے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ صلح کے پیش نظر ان کو مشرکین کے حوالے کر دیا اور انہیں صبر و استقامت کی تلقین کر تے ہوئے فرمایا کہ ابوجندل ! صبر و استقامت کی راہ اختیار کرو اور آخرت کے اجر و ثواب کی امید رکھو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بھی اور دوسرے ضعیف و بے بس لوگوں کے لئے بھی ( جلد ہی ) خلاصی و نجات اور شادمانی کے سامان پیدا کر دے گا ۔
علماء لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل مکہ کی ان شرائط کو قبول کرنا جو بظاہر مسلمانوں کے لئے سوہان روح اور ان کی ملی حمیت و وقار کے منافی تھیں، اس وجہ سے تھا کہ ایک تو اس وقت مسلمان بہرحال کمزور و خستہ حال تھے اور ان میں اتنی مادی طاقت اور ان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے جن کے ذریعہ وہ اہل مکہ کا مقابلہ کر پاتے، دوسرے یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ سے کسی جنگ کے ارادے سے نہیں چلے تھے بلکہ عمرہ کے لئے روانہ ہوئے تھے اور اس کے لئے احرام بھی باندھ چکے تھے، ادھر حدود حرم کی عظمت اور ان کے شرعی تقاضوں کا لحاظ بھی ضروری تھا، نیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنگ کرنے کا حکم بھی نازل نہیں ہوا تھا ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مصلحتیں تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر تھیں۔ چنانچہ انجام کار اس معاہدہ صلح کے بہت زیادہ فائدے ظاہر ہوئے کہ اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے ایسے مواقع میسر آئے جنہوں نے دور دراز تک کی فضا کو مسلمانوں کے حق میں بدل دیا اور اسلام کی آواز چار دانگ عالم میں پھیل گئی، پھر اللہ تعالیٰ نے مکہ کی فتح عظیم عطا فرمائی، وہاں کے لوگوں کو اسلام کے دامن میں پہنچادیا، اور اس طرح یہ ثابت ہو گیا کہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کی پیش کردہ شرائط پر معاہدہ صلح کر کے اپنے جذبہ امن پسندی و انسانیت نوازی ہی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اپنی بے مثال سیاسی بصیرت و بالغ نظری اور دور اندیشی کا نمونہ بھی پیش کیا اور سب سے بڑھ کر حقیقت میں منشاء الٰہی اور حکم الٰہی کی فرماں برداری کی اور کمال عبودیت کا اظہار کیا ۔

یہ حدیث شیئر کریں