مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ صلح کا بیان ۔ حدیث 1133

صلح حدیبیہ

راوی:

عن المسور بن مخرمة ومروان بن الحكم قالا : خرج النبي صلى الله عليه و سلم عام الحديبية في بضع عشرة مائة من أصحابه فلما أتى ذا الحليفة قلد الهدي وأشعر وأحرم منها بعمرة وسار حتى إذا كان بالثنية التي يهبط عليهم منها بركت به راحلته فقال الناس : حل حل خلأت القصواء خلأت القصواء فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " ما خلأت القصواء وما ذاك لها بخلق ولكن حبسها حابس الفيل " ثم قال : " والذي نفسي بيده لا يسألوني خطة يعظمون فيها حرمات الله إلا أعطيتهم إياها " ثم زجرها فوثبت فعدل عنهم حتى نزل بأقصى الحديبية على ثمد قليل الماء يتبرضه الناس تبرضا فلم يلبثه الناس حتى نزحوه وشكي إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم العطش فانتزع سهما من كنانته ثم أمرهم أن يجعلوه فيه فو الله ما زال يجيش لهم بالري حتى صدروا عنه فبينا هم كذلك إذ جاء بديل بن ورقاء الخزاعي في نفر من خزاعة ثم أتاه عروة بن مسعود وساق الحديث إلى أن قال : إذ جاء سهيل بن عمرو فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " اكتب : هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله " . فقال سهيل : والله لو كنا نعلم أنك رسول الله ما صددناك عن البيت ولا قاتلناك ولكن اكتب : محمد بن عبد الله فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " والله إني لرسول الله وإن كذبتموني اكتب : محمد بن عبد الله " فقال سهيل : وعلى أن لا يأتيك منا رجل وإن كان على دينك إلا رددته علينا فلما فرغ من قضية الكتاب قال رسول الله صلى الله عليه و سلم لأصحابه : " قوموا فانحروا ثم احلقوا " ثم جاء نسوة مؤمنات فأنزل الله تعالى : ( يا أيها الذين آمنوا إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات )
الآية . فنهاهم الله تعالى أن يردوهن وأمرهم أن يردوا الصداق ثم رجع إلى المدينة فجاءه أبو بصير رجل من قريش وهو مسلم فأرسلوا في طلبه رجلين فدفعه إلى الرجلين فخرجا به حتى إذا بلغا ذا الحليفة نزلوا يأكلون من تمر لهم فقال أبو بصير لأحد الرجلين : والله إني لأرى سيفك هذا يا فلان جيدا أرني أنظر إليه فأمكنه منه فضربه حتى برد وفر الآخر حتى أتى المدينة فدخل المسجد يعدو فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " لقد رأى هذا ذعرا " فقال : قتل والله صحابي وإني لمقتول فجاء أبو بصير فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " ويل أمه مسعر حرب لو كان له أحد " فلما سمع ذلك عرف أنه سيرده إليهم فخرج حتى أتي سيف البحر قال : وانفلت أبو جندل بن سهيل فلحق بأبي بصير فجعل لا يخرج من قريش رجل قد أسلم إلا لحق بأبي بصير حتى اجتمعت منهم عصابة فو الله ما يسمعون بعير خرجت لقريش إلى الشام إلا اعترضوا لها فقتلوهم وأخذوا أموالهم فأرسلت قريش إلى النبي صلى الله عليه و سلم تناشده الله والرحم لما أرسل إليهم فمن أتاه فهو آمن فأرسل النبي صلى الله عليه و سلم إليهم . رواه البخاري

" اور حضرت مسور ابن مخرمہ اور حضرت مروان ابن حکم سے روایت ہے ۔ یہ دونوں کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال اپنے ایک ہزار کچھ سو صحابہ کو لے کر (مدینہ سے ) روانہ ہوئے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ پہنچے ( جو مدینہ منورہ سے جنوب میں تقریباً چھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے اور جس کو ابیار علی بھی کہتے ہیں ) تو ہدی ( یعنی اپنی قربانی کے جانور ) کی گردن میں قلادہ باندہ اور اشعار کیا اور پھر ذوالحلیفہ (ہی) سے عمرہ کے لئے احرام باندھ کر آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کے جب ثنیہ ( یعنی اس گھاٹی پر ) پر پہنچے جس طرف سے اہل مکہ پر اترا جاتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ( جس کا نام قصواء تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر بیٹھ گئی، ( جب ) لوگوں نے ( یہ دیکھا تو ) کہنا شروع کیا " حل حل ( یہ لفظ اونٹ کو اٹھا نے کے لئے کہا جاتا ہے ) قصواء اڑ گئی قصو اء اڑگئی ۔ " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا " نہیں! قصواء نے اڑ نہیں کی ہے اور نہ اس کو اڑ نے کی عادت ہے، بلکہ اس کو اس ذات ( اللہ تعالیٰ ) نے روک دیا ہے جس نے ہاتھی کو روکا تھا ۔ " اور پھر فرمایا " قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے قریش مجھ سے ایسی جو بات بھی چاہیں گے جس میں اللہ تعالیٰ (کے حرم ) کی عظمت ہو تو میں ان کی اس بات کو پورا کروں گا یعنی آج مکہ کے لوگ صلح کے وقت ایسی جس بات کا بھی مطالبہ کریں گے جس میں حرم مکہ کی عظمت کا لحاظ ہو تو میں اس کو پورا کروں گا ۔ " پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو اٹھایا جو فورًا اٹھ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ کا راستہ چھوڑ کر دوسری سمت کو چلنے لگے تا آنکہ حدیبیہ کے آخری کنارہ پر پہنچ کر جہاں ( ایک گھڑے میں ) تھوڑا سا پانی تھا اتر گئے ( اور وہاں پڑاو،ڈال دیا ) لوگوں نے اس گھڑے میں سے تھوڑا تھوڑا سا پانی لے کر استعمال کرنا شروع کیا یہاں تک کے ذرا ہی دیر میں سارے پانی کو کھینچ ڈالا ( یعنی اس گھڑے میں پانی چونکہ بہت تھوڑا تھا اس لئے لوگوں کے کم سے کم مقدار لینے کے باوجود وہ پانی بہت جلد ختم ہو گیا ) لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیاس کی شکایت کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تر کش میں سے ایک تیر نکالا اور صحابہ کرام کو حکم دیا کہ تیر کو پانی کے ( اس گڑھے ) میں ڈال دیا جائے ۔ اور پھر ( راوی کہتے ہیں کہ ) اللہ کی قسم ! ( اس تیر کی برکت سے ) ان لوگوں کو سیراب کرنے کے لئے کبھی ختم نہ ہونے والا پانی ( گویا ) موجیں مارتا رہا تا آنکہ سب اس پانی پر سے ہٹ گئے ( یعنی اللہ تعالیٰ نے اس گھڑے میں اتنا زیادہ پانی پیدا فرمایا کہ سب لوگوں کی ضرورتیں نہایت اطمینان سے پوری ہوتی رہیں بلکہ جب وہاں سے واپسی ہوئی تو اس وقت بھی پانی باقی رہا ) بہر حال صحابہ اسی حالت میں تھے، اچانک بدیل ابن ورقہ خزاعی، خزا عہ کہ کچھ لوگوں کے ساتھ ( کفار مکہ کی طرف سے مصالحت کے لئے ) آیا، پھر عروہ ابن مسعود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا ۔ اس کے بعد بخاری نے ( وہ طویل گفت و شنید نقل کی، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور بدیل اور عروہ کے درمیان ہوئی ، جس کو صاحب مصابیح نے اختصار کے پیش نظر یہاں نقل نہیں کیا اور پھر یہ ) بیان کیا کہ آخر کار جب سہیل ابن عمر و ( اہل مکہ کا آخری سفیر اور نمائندہ بن کر آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت علی ) سے فرمایا کہ لکھو ۔ " یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے صلح کی ہے ۔ " سہیل نے ( یہ الفاظ دیکھ کر ) کہا کہ " واللہ ! اگر ہم یہ مانتے کہ تم اللہ کے رسول ہو تو نہ ہم تمہیں خانہ کعبہ ( میں جانے ) سے روکتے اور نہ جنگ کرتے ۔ لہٰذا یوں لکھو کہ ( یہ وہ معاہدہ ہے جس پر ) محمد ابن عبداللہ ( نے صلح کی ہے ) ۔ " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ سن کر) فرمایا کہ " اللہ کی قسم ! میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم مجھو کو جھوٹا سمجھتے ہو ( خیر میں مصالحت کی خاطر الفاظ میں تمہاری اس ترمیم کو تسلیم کئے لیتا ہوں ) علی ! تم محمد ابن عبداللہ ہی لکھ دو ۔ " پھر سہیل نے یہ کہا کہ " اور اس معاہدہ صلح میں اس بات کو بھی تسلیم کرو کہ ( تم میں سے جو شخص ہمارے ہاں آجائے گا ہم تو اس کو واپس نہ جانے دیں گے لیکن ) ہم میں سے جو شخص تمہارے ہاں چلا جائے گا اگرچہ وہ تمہارے دین کو قبول کر چکا ہو اس کو تم ہمارے ہاں واپس کر دو گے ۔ " ( چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی قبول کر لیا، اس موقع پر بھی واقعہ میں اختصار سے کام لیا گیا ہے یعنی صاحب مصابیح نے اسی معاہدہ سے متعلّق بخاری کی بیان کردہ ساری تفصیل کو نقل نہیں کیا ہے یا یہ بخاری کی کوئی اور روایت ہے جس میں صرف اسی قدر بیان کیا گیا ہے ) بہر حال جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( یا حضرت علی ) صلح نامہ لکھے جانے سے فارغ ہوئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ " اٹھو جاؤ، اب ( ہدی کے جانوروں کو ) ذبح کر ڈالو اور سر منڈھواؤ ۔ " اس کے بعد ( مکہ سے ) کئی عورتیں مسلمان ہو کر آئیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا ۔
آیت ( يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ ا اِذَا جَا ءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْهُنَّ ) 60۔ الممتحنہ : 10)
اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں ہجرت کرکے آئیں الخ : ۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ( اس آیت کے ذریعہ ) مسلمانوں کو اس بات سے منع کیا کہ وہ ان عورتوں کو ( کفار مکہ کے ہاں ) واپس کر دیں اور انہیں اس بات کا حکم دیا کہ ان کا مہر واپس کر دیں، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لے آئے ( کچھ دنوں کے بعد ) قریش کے ایک شخص ابوبصیر جو مسلمان ہو گئے تھے ( مکہ سے نکل کر ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، قریش مکہ نے دو آدمیوں کو ان کی تلاش میں ( مدینہ ) بھیجا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( معاہدہ صلح کے مطابق ) ابوبصیر کو ان دونوں آدمیوں کے حوالے کر دیا، وہ دونوں آدمی ابوبصیر کو لے کر ( مکہ ) روانہ ہوئے اور جب ( پہلی منزل ) ذوالحلیفہ میں قیام کیا اور ان کے پاس جو کھجوریں تھیں ان کو کھانے لگے تو ابوبصیر نے ان میں سے ایک شخص کو مخاطب کرکے کہا " اللہ کی قسم ، اے فلاں شخص ! میرا خیال ہے کہ تمہاری یہ تلوار ( بہت اچھی ہے ) ذرا مجھے تو دکھلاؤ میں بھی اس کو دیکھوں، اس شخص ابوبصیر کو وہ تلوار دیکھنے کا موقع دے دیا یعنی ( اس نے اپنی تلوار ابوبصیر کے ہاتھ دے دی، بس اتنا موقع کافی تھا ) ابوبصیر نے اس پر ( اس تلوار سے اتنا بھر پور وار ) کیا کہ وہ فوراً ٹھنڈا ہوگیا ( یعنی مر گیا ) اور دوسرا شخص ( یہ دیکھتے ہی وہاں سے ) بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ مدینہ میں (واپس آگیا اور اپنے قتل کے خوف سے ) دوڑتا ہوا مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کی حالت دیکھ کر ) فرمایا کہ " یہ شخص خوفزدہ معلوم ہوتا ہے ۔" اس شخص نے کہا کہ ( جی ہاں ) اللہ کی قسم میرا ساتھی تو مارا گیا اور میرے بھی مارے جانے میں کوئی شبہ نہیں ہے ( یعنی مجھ پر خوف سوار ہے کہ میں بھی مارا جاؤں گا میں بچ ہی گیا ورنہ میں بھی مارا جاتا ) پھر ابوبصیر بھی آگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کو دیکھ کر ) فرمایا کہ افسوس ہے اس کی ماں پر !( یعنی تعجب وحیرت کا مقام ہے ) یہ ابوبصیر تو لڑائی کی آگ بھڑکا نے والا ہے اگر اس کا کوئی مدد گار ہوتا، تو وہ اس کی مدد کر تا)۔ " جب ابوبصیر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سنی تو وہ سمجھ گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ( پھر ) کافروں کے پاس واپس بھیج دیں گے چنانچہ ابوبصیر ( دوبارہ کافروں کے حوالے کئے جانے کے خوف سے روپوش ہونے کے لئے ) مدینہ سے نکل گئے یہاں تک کے وہ سمندر کے ساحل پر ایک علاقہ میں پہنچ گئے ۔
راوی کہتے ہیں کہ ابوجندل ابن سہیل بھی کفار کے قبضے سے نکل بھاگے اور ابوبصیر سے آکر مل گئے اور پھر تو یہ حال ہوا کہ ( مکہ میں ) جو بھی شخص اسلام قبول کر کے قریش کے قبضہ سے نکل بھاگتا وہ ابوبصیر سے جاملتا یہاں تک کے ( چند ہی روز میں ابوبصیر کے پاس ) قریش سے چھوٹ کر آنے والوں کا ایک بڑا گروہ جمع ہو گیا، اور اللہ کی قسم ! جب بھی یہ لوگ سنتے کہ قریش کا کوئی قافلہ ( تجارت وغیرہ کے لئے ) شام کی طرف روانہ ہوا ہے، وہ اس کا پیچھا کرتے اور اس کو موت کے گھاٹ اتار کر اس کا سارا مال و اسباب لے لیتے آخر کار ( جب ان لوگوں کی وجہ سے ) قریش ( کا ناطقہ بند ہوگیا اور وہ سخت پریشانی میں مبتلا ہو گئے تو ان کو احساس ہوا کہ ہم نے مسلمانوں سے ایک انتہائی غیر معقول شرط منوا کر کتنی بڑی نادانی کی ہے اور اس کا خمیازہ کس طرح بھگتنا پڑ رہا ہے لہٰذا انہوں) نے کسی شخص کو ( اپنا سفیر و نمائندہ بنا کر ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا اور اس کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دلائی اور (اس) قرابت کے حق کا واسطہ دیا ( جو ان میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں تھی اور یہ التجا کی کہ آپ کسی نہ کسی طرح صرف اتنا کرم ضرور کر دیں کہ اپنے کسی آدمی کو ابوبصیر اور ان کے ساتھیوں کے پاس بھیج کر یہ حکم دیں کہ وہ مدینہ میں آجائیں اور ہمارے کسی قافلہ کے ساتھ تعرص نہ کریں ) اور جب آپ ان کو یہ حکم بھیج دیں ( اور وہ لوگ آپ کے پاس چلے آئیں ) تو پھر ( ہم اہل مکہ میں سے ) جو بھی شخص ( مسلمان ہو کر ) آپ کے پاس آئے گا وہ امن میں رہے گا (یعنی نہ صرف یہ کہ اس کی راہ میں کوئی رکا وٹ نہیں ڈالی جائے گی بلکہ اس کو ہمارے پاس ) واپس بھیجنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی ۔ نیز انہوں نے کہا کہ آپ ابوبصیر کو ان کے طریقہ کار سے روک دیں ہم معاہدہ صلح کی اس شرط سے باز آئے ) چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کو ابوبصیر اور ان کے ساتھیوں کے پاس بھیجا ( جس کے ذریعہ ان کو یہ حکم دیا کہ وہ قریش کے قافلوں سے کوئی تعرض نہ کریں اور میرے پاس چلے آئیں ) ۔ ( بخاری )

تشریح :
" حدیبیہ " مکہ مکرمہ سے مغربی جانب تقریباً پندرہ سو میل کے فاصلے پر واقع ایک جگہ کا نام ہے یہیں جبل الشمیسی نامی ایک پہاڑ ہے جس کی وجہ سے اب اس کو شمیسیہ بھی کہتے ہیں، حدود حرم یہاں سے بھی گذرتے ہیں بلکہ اس جگہ کا اکثر حرم ہی میں داخل ہے ۔
" ایک ہزار کچھ سو صحابہ الخ : " میں " بضع " کا اطلاق تین سے نو تک کی تعداد پر ہوتا ہے ۔ یہاں تعداد کو متعین کی بجائے مبہم اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ اس موقع پر صحابہ کی جو تعداد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھی اس کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں ۔ بعض روایتوں میں چودہ سو کی تعداد بیان کی گئی ہے بعض میں پندرہ سو اور بعض روایتوں میں " ایک ہزار چار سو یا اس سے زیادہ " کے الفاظ بھی ہیں ۔ علماء نے ان روایتوں میں یوں مطابقت پیدا کی ہے کہ ابتداء میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ کے ساتھ روانہ ہوئے تھے لیکن بعد میں مختلف مراحل پر اس تعداد میں اضافہ ہوتا رہا چنانچہ جس راوی نے سو سے پہلے شمار کیا اس نے چودہ سو کی تعداد پائی اور پھر بعد میں جن لوگوں کا اضافہ ہوا اس نے ان کو نہیں دیکھا لہٰذا اس نے اپنی روایت میں چودہ سو کی تعداد بیان کی لیکن جس راوی نے بعد میں آنے والے لوگوں کو بھی دیکھا اس نے پندرہ سو کی تعداد کا ذکر کیا اور جس راوی نے تعداد کی تعین و تحقیق نہیں کی اس نے اپنی روایت میں ایک ہزار چار سو یا اس سے زیادہ " کو بیان کیا ۔
" ذبح کر ڈالو اور پھر منڈھواؤ " احصار یعنی حج یا عمرہ کا احرام باندھ لینے کے بعد اس حج یا عمرہ کی ادائیگی سے روک دیئے جانے کی صورت میں یہی حکم ہے، چنانچہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کو حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد اس حج یا عمرہ سے روک دیا گیا ہو جس کو " محصر " کہتے ہیں ۔ تو وہ اپنے ہدی کو اسی جگہ ذبح کر ڈالے جہاں وہ روک دیا ہے اگرچہ وہ جگہ حدود حرم میں واقع نہ ہو وہ اپنے قول کی دلیل میں یہ بات پیش کر تے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر حدیبیہ میں ہدی کو ذبح کرنے کا حکم دیا تھا جب کہ حدیبیہ حدود حرم میں نہیں ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک ہدی کا چونکہ حدود حرم میں ذبح ہو نا شرط ہے اس لئے ان کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ حدیبیہ کا سارا علاقہ حدود حرم سے باہر نہیں ہے بلکہ اس کا بعض حصہ بلکہ اکژ حصہ حدود حرم میں داخل ہے اور ظاہر ہے کہ اس موقع پر ہدی اسی حصے میں ذبح کی گئی تھی جو حدود حرم میں ہے ۔
" ان کو مہر واپس کر دیں " اس حکم کا مطلب یہ تھا کہ اگر ان مسلمان عورتوں کے کافر خاوند ان کو لینے کے لئے آئیں اور وہ ان کے مہر ادا کر چکے ہوں تو وہ مہر ان کو واپس کر دیا جائے ۔ تفسیر مدارک وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مہر کو واپس کر دینے کا یہ حکم اسی موقع کے لئے مخصوص تھا پھر بعد میں اس کو منسوخ قرار دے دیا گیا ۔
یہ بات ملحوظ رہے کہ معاہدہ صلح کی یہ شرط کہ " مکہ سے جو شخص آپ کے پاس آئے گا اگرچہ وہ مسلمان ہو کر آئے تو اس کو کفار مکہ کے حوالے کرنا ضروری ہوگا " ۔ صرف مردوں سے متعلّق تھی اسی لئے جب مکہ کی یہ عورتیں مسلمان ہو کر آپ کے پاس آئیں تو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا کہ صلح نامہ میں صرف مردوں کو واپس کرنا طے پایا تھا نہ کہ عورتوں کو بھی، اس لئے ان عورتوں کو جو اپنے آپ کو بڑی آزمائش اور سخت ابتلاء میں ڈال کے آئیں ہیں واپس نہ کیا جائے ۔
" اگر اس کا کوئی مدد گار ہوتا الخ " کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ سے واضح ہوا ، اور ایک مطلب یہ ہے کہ ' ' کاش ! اس وقت کوئی خیر خواہ ابوبصیر کے پاس ہوتا جو اس کو یہ بتا دیتا کہ وہ اب میرے پاس نہ آئے تاکہ میں اس کو دوبارہ واپس نہ کردوں ۔ " حدیث کے سیاق کے مطابق یہی مطلب زیادہ مناسب ہے ۔
" جب ابوبصیر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سنی الخ " یعنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ " یہ ابوبصیر تو لڑائی کی آگ بھڑکانے والا ہے ۔ " تو وہ سمجھ گئے کہ یہاں مدینہ میں مجھے پناہ نہیں ملے گی بلکہ مجھے دوبارہ کفار کے حوالے کر دیا جائے گا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد صریحاً اس طرف اشارہ کر رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں صلح کی پابندی کریں گے اور نہ تو ابوبصیر کو اپنے پاس رکھیں گے اور نہ ان کی کوئی مدد کریں گے ۔
حضرت ابوجندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی سہیل کے بیٹے تھے جو صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش مکہ کا سفیر اور نمائندہ بن کر آیا اور جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ صلح کیا تھا ) حضرت ابوجندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ ہی میں اسلام قبول کر چکے تھے جس کے نتیجے میں ان کے باپ سہیل نے ان کو قید کر دیا تھا چنانچہ پہلے تو وہ کسی نہ کسی طرح مکہ سے بھاگ کر حدیبیہ گئے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ صلح کی مذکورہ شرط کے مطابق انہیں تسلی، دلاسہ کے ذریعے سمجھا بجھا کر اور بڑی بحث و تکرار کے بعد مکہ واپس کر دیا تھا مگر پھر دوبارہ وہ مکہ سے بھاگ نکلے، اور ابوبصیر سے آکر مل گئے ۔

یہ حدیث شیئر کریں