مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ صلح کا بیان ۔ حدیث 1132

صلح کا بیان

راوی:

" صلح " اصل میں صلاح اور صلوح کا اسم ہے جو فساد بمعنی تباہی کے مقابلہ پر استعمال ہوتا ہے ۔ اسلامی مملکت کے سر براہ کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ نظریہ تو حید کے مطابق عالمگیر امن کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے، تبلیغ اسلام کی مطمح نظر کی خاطر انسانی سلامتی و آزادی کی حفاظت اور سیاسی و جنگی مصلح کے پیش نظر دشمن اقوام سے معاہدہ صلح و امن کر لے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ٦ھ میں اپنے سب سے بڑے دشمن کفار مکہ سے صلح کی جو " صلح حدیبیہ " کے نام سے مشہور ہے ۔ اس معاہدہ صلح کی مقدار دس سال مقرر کی گئی تھی اور حدیث و تاریخ کے اس متفقہ فیصلہ کے مطابق کہ حدیبیہ کا یہی وہ معاہدہ صلح ہے جس نے نہ صرف اسلام کی تبلیغ واشاعت کی راہ میں بڑی آسانیاں پیدا کی بلکہ دنیا کو معلوم ہوگیا کہ اسلام، انسانیت اور امن کے قیام کا حقیقی علم دار ہے اور مسلمان اس راہ میں اس حد تک صادق ہیں کہ جنگ جو عرب اور بالخصوص کفار مکہ کے وحشیانہ تشدد اور عیارانہ سازشوں کے باوجود اس معاہدہ کی پوری پوری پابندی کر تے رہے لیکن اس معاہدہ صلح کی مدت پر تین سال ہی گذرے تھے کہ کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف بنو خزاعہ کے مقابلہ پر جنگ کرنے والے بنو بکر کی مدد کرکے اس معاہدہ کو توڑ ڈالا ۔

یہ حدیث شیئر کریں