پہلی امتوں میں مال غنیمت کو آسمانی آگ جلا ڈالتی تھی
راوی:
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " غزا نبي من الأنبياء فقال لقومه : لا يتبعني رجل ملك بضع امرأة وهو يريد أن يبني بها ولما يبن بها ولا أحد بنى بيوتا ولم يرفع سقوفها ولا رجل اشترى غنما أو خلفات وهو ينتظر ولادها فغزا فدنا من القرية صلاة العصر أو قريبا من ذلك فقال للشمس : إنك مأمورة وأنا مأمور اللهم احبسها علينا فحبست حتى فتح الله عليه فجمع الغنائم فجاءت يعني النار لتأكلها فلم تطعمها فقال : إن فيكم غلولا فليبايعني من كل قبيلة رجل فلزقت يد رجل بيده فقال : فيكم الغلول فجاؤوا برأس مثل رأس بقرة من الذهب فوضعها فجاءت النار فأكلتها " . زاد في رواية : " فلم تحل الغنائم لأحد قبلنا ثم أحل الله لنا الغنائم رأى ضعفنا وعجزنا فأحلها لنا "
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " انبیاء میں سے ایک نبی ( یعنی حضرت یوشع ابن نون علیہ السلام کا ذکر ہے کہ ایک مرتبہ انہوں ) نے جہاد کا ارادہ کیا اور جب وہ جہاد کے لئے روانہ ہونے لگے تو انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ میرے ساتھ وہ شخص نہ چلے جس نے کسی عورت سے نکاح کیا ہو اور اس عورت کو اپنے گھر لا کر اس سے مجامعت کا ارادہ رکھتا ہو اور ابھی تک اسے مجامعت نہ کی ہو اور میرے ساتھ نہ وہ شخص چلے جس نے گھر بنایا ہو لیکن (ابھی تک ) اس کی چھت نہ ڈال سکا ہو نیز وہ شخص (بھی ) میرے ساتھ نہ چلے جس نے گابھن بکریاں یا گابھن اونٹنیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے بچے جننے کا منتظر ہو ۔ اس کے بعد وہ نبی ( اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ ) جہاد کے لئے روانہ ہوئے اور جب اس بستی کے قریب پہنچے کہ جہاں وہ جہاد کرنے کا ارادہ رکھتے تھے تو نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا (یعنی وہ ایسے وقت اس بستی کے قریب پہنچے جب عصر کی نماز کا وقت ہوتا ہے یا ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے ) اس نبی نے آفتاب کو مخاطب کر کے کہا کہ تو بھی (چلنے پر ) مامور ہے اور میں بھی ( اس بستی کو فتح کرنے پر ) مامور ہوں ۔ اے اللہ ! تو اس آفتاب کو ٹھہرا دے ۔ " چنانچہ آفتاب ٹھہرا دیا گیا ( یعنی قدیم ماہرین فلکیات کے نظریہ کے مطابق آفتاب کی رفتار کو یا جدید نظریہ کے مطابق زمین کی گردش کو حکم الٰہی سے روک دیا گیا تاکہ رات کی تاریکی سے پہلے پہلے وہ نبی جہاد کر لیں ) تا آنکہ اللہ تعالٰی نے اس نبی کو فتح عطاء فرما دی ۔ پھر جب مال غنیمت جمع کیا گیا اور اس کو جلا ڈالنے کے لئے آگ آئی تو اس آگ نے مال غنیمت کو نہیں جلایا ، (یہ دیکھ کر ) اس نبی نے (اپنے ساتھیوں سے ) فرمایا کہ (یقینا تمہارے اندر مال غنیمت میں خیانت واقع ہوئی ہے یعنی تم میں سے کسی نے مال غنیمت کے اندر خیانت کی ہے ( جس کی وجہ سے یہ آگ اپنا کام نہیں کر رہی ہے ) لہٰذا تم میں سے ہر قبیلہ کے ایک ایک شخص کو چاہئے کہ وہ بیعت کرے ، چنانچہ ( جب بیعت شروع ہوئی اور ہر قبیلہ کا ایک ایک آدمی اپنا ہاتھ اس نبی کے ہاتھ میں دینے لگا ) تو ایک شخص کا ہاتھ اس نبی کے ہاتھ کو چپک کر رہ گیا ، نبی نے ( اس شخص سے) فرمایا کہ " ( اس ذریعہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ) خیانت تمہارے قبیلے کی طرف سے ہوئی ہے ۔" پھر اس قبیلے کے لوگ سونے کا ایک سر لائے جو بیل کے سر کی مانند تھا اور اس کو رکھ دیا ، اس کے بعد آگ آئی اور اس نے اس کو جلا دیا ۔ اور ایک روایت میں راوی سے یہ عبارت بھی نقل کی ہے کہ " ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ) چنانچہ ہم سے پہلے کسی کے لئے مال غنیمت حلال نہیں تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت کو ہمارے لئے حلال قرار دیا ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں (مالی طور پر ) ضعیف وکمزور دیکھا تو مال غنیمت کو ہمارے لئے حلال کر دیا ۔ " (بخاری ومسلم )
تشریح :
حضرت یوشع علیہ السلام نے جہاد کے لئے روانگی کے وقت ان چند لوگوں کو اپنے ساتھ چلنے سے اس لئے روک دیا تھا کہ جب دل کسی اور چیز میں اٹکا ہوا ہوتا ہے تو اس چیز کے علاوہ کسی اور کام میں طبیعت نہیں لگتی لہٰذا اگر مذکورہ لوگوں کو جانے والے لشکر میں شریک کیا جاتا تو وہ پورے جوش و جذبہ اور چستی و تندہی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنے پر قادر نہیں ہو سکتے تھے اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں وہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا تھا جس کے لئے ان کو لے جایا جاتا ۔
اس سے معلوم ہوا کہ جنگی مہمات وغیرہ کے موقع پر اپنے تمام ضروری امور و معاملات سے فراغت و یکسوئی حاصل کر لینی چاہئے تاکہ جس مہم میں نکلا جائے اس کو بخوبی سر انجام دیا جا سکے ۔
" آفتاب ٹھہرا دیا گیا الخ : ۔" مواہب لدنیہ میں لکھا ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ (نظام شمسی کی پوری مدت عمر ) میں حضرت یوشع ابن نون علیہ السلام کے علاوہ اور کسی کے لئے سورج کو کبھی نہیں ٹھہرایا گیا ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سورج کا ٹھہر جانا صرف حضرت یوشع علیہ السلام کے خصائص میں سے ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی سورج کا ٹھہرایا جانا ثابت ہے ! اس طرح دونوں باتوں میں جو ظاہری تضاد ہے اس کو اس توجیہہ کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے کہ حضرت یوشع علیہ السلام کے متعلّق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ارشاد ہے ( کہ یوشع کے علاوہ اور کسی کے لئے سورج نہیں ٹھہرایا گیا ) ۔ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ پیغمبروں میں حضرت یوشع علیہ السلام کے سوا کوئی ایسا پیغمبر نہیں ہے جس کے لئے سورج ٹھہرایا گیا ہو سوائے میرے ۔ نیز یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سورج ٹھہرایا گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے یہ ارشاد فرمایا ہو ۔
موہب لدنیہ کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سورج ٹھہرنے کا واقعہ دو مرتبہ پیش آیا ہے ۔ ایک بار تو شب معراج کے دوسرے دن اور دوسری بار غزوہ خندق کے دن جب کے کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ میں الجھائے رکھ کر عصر کی نماز پڑھنے سے روک دیا تھا یہاں تک کے سورج ڈوب گیا تھا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سورج کو واپس کیا (یعنی عصر کا وقت لوٹایا ) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی ۔ اسی طرح ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت علی کے لئے بھی سورج واپس ہوا ہے وہ یوں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے زانوں پر سر رکھ کر لیٹے ہوئے تھے کہ اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہو گیا ، اس صورت میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک اپنے زانوں پر سے نہ اٹھا سکے یہاں تک کہ عصر کا وقت ختم ہو گیا اور وہ نماز نہیں پڑھ پائے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے سورج کو واپس کیا ، تب انہوں نے عصر کی نماز وقت پر ادا کی ، مواہب لدنیہ نے اس واقعہ کو بھی تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے لیکن علماء نے اس واقعہ میں کلام بھی کیا ہے ۔
" اس کو جلا ڈالنے کے لئے آگ آئی الخ : جیسا کہ پہلے بھی معلوم ہو چکا ہے، یہ صرف امّت محمدیہ کی خصوصیت ہے کہ اس کے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا ہے ۔ پچھلی امتوں کو غنیمت کا مال اپنے مصرف میں لانے کی اجازت نہیں تھی ۔ بلکہ حکم الٰہی کے مطابق یہ دستور تھا کہ جنگ کے بعد غنیمت کا سارا مال جمع کر کے جنگل میں رکھ دیا جاتا تھا، اس کے بعد آسمان سے آگ آتی اور اس کو جلا دیتی ، جو قبولیت کی علامت ہوتی ۔